آپ نے دیکھا کہ اگر سلسلۂ کلام معیّن ہو جائے ‘ سیاق و سباق واضح ہو جائے کہ کن حالات میں گفتگو ہو رہی ہے‘ اس وقت کیا مسائل درپیش تھے‘ اور کون لوگ ہیں جن کی طرف روئے سخن ہے تو قرآن مجید کی ایک ایک آیت کس طرح خود بولتی ہے اور کس طرح اس کی آیات کے مابین ایک ربط اور تعلق قائم ہوتا چلا جاتا ہے. اس لئے کہ یہ ایک مربوط اور مسلسل کلام ہے. یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ قرآن مجید کا نزول ایک خاص قوم کے مابین ایک خاص ماحول میں ہوا ہے. اس کے نزول کے ساتھ ساتھ ایک خاص جماعت تیار ہو رہی تھی جسے جہاد فی سبیل اللہ کے لئے ایک منظم قو ّ ت کے طور پر تیار کیا جا رہا تھا. چنانچہ قرآن حکیم ان کے احساسات اور ان کے مسائل و معاملات کو وقتاً فوقتاً ‘ وقفے وقفے سے زیرِ بحث لاتا ہے.

سورۃ العنکبوت کے پہلے رکوع میں ان مسائل و مشکلات‘ ان امتحانات‘ ان آزمائشوں‘ ان تکالیف اور مصیبتوں کے ضمن میں ایک مکمل ہدایت نامہ موجود ہے کہ ان کے بارے میں اہل ایمان کا نقطۂ نظر کیا ہونا چاہئے. چنانچہ ان پر واضح کیا جا رہا ہے کہ یہ تمہارے ایمان کی آزمائش ہے.تمہارے ایمان کی صداقت کا ثبوت اسی سے مہیا ہو گا. یہ امتحان تمہارے جذبۂ ایمانی کی تربیت کے لئے بھی مطلوب ہے. اور یہ آزمائش اصلاً اللہ کی طرف سے ہے‘ اگرچہ بظاہر یہ اللہ کے دشمنوں کے ہاتھوں تم تک پہنچ رہی ہے. اور پھر یہ بھی نہ سمجھو کہ تمہیں ایذائیں دے کر وہ بری ہو جائیں گے‘ ان کو لازماً پکڑا جائے گا. ابھی اللہ کی حکمت میں ان کی رسّی دراز کرنا ہے. وہ تمہیں اُس وقت تک ستا سکیں گے جب تک اللہ چاہے گا. اور ایک وقت لازماً آئے گا کہ وہ اللہ کی گرفت 
میں آئیں گے اِنَّ بَطۡشَ رَبِّکَ لَشَدِیۡدٌ ﴿ؕ۱۲﴾ ’’تمہارے ربّ کی پکڑ بہت سخت ہے‘‘.اگر انہوں نے یہ سمجھا ہے کہ اس سے بچ نکلیں گے تو بڑا غلط فیصلہ کیا ہے. پھر ایمان کی حقیقت بھی بیان فرما دی گئی اور ایمان اور عمل صالح کے تقاضے پورے کرنے والوں کے لئے بہترین اجر کی بشارت بھی دی گئی. یہ سب کچھ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کو صبر کی تلقین ہی تو ہے.

ہمارے اس منتخب نصاب کا نقطۂ آغاز سورۃ العصر ہے‘ جس میں ایمان اور عمل صالح کے ساتھ ساتھ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کو بھی لوازمِ نجات میں سے شمار کیا گیا ہے:

وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۬ۙ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ ٪﴿۳

سورۃ العنکبوت کا یہ مقام دراصل ’’تواصی بالصبر‘‘ کے لئے انتہائی خوبصورت افتتاحی سبق ہے. یہاں تواصی بالصبر کا فریضہ گویا اللہ تعالیٰ خود سرانجام دے رہے ہیں. اہل ایمان کو صبر و ثبات کی تلقین کی جا رہی ہے کہ اپنے قول پر ڈٹے رہو‘ جمے رہو‘ اپنے دعوائے ایمان میں اس طور سے ثابت قدم رہو کہ تمہارے پائے ثبات میں کہیں کوئی لرزش نہ آنے پائے.