یہ سورۂ مبارکہ ایک خاص پہلو سے انہی مضامین پر مشتمل ہے . اس منتخب نصاب میں اس کا تو امکان نہیں ہے کہ سات رکوعوں پر مشتمل اس پوری سورۂ مبارکہ کا درس شامل کیا جا سکے ‘ تاہم پہلے رکوع کے علاوہ ہم اس کی مزید چند آیات کا مطالعہ بھی کریں گے . دوسرے‘ تیسرے اور چوتھے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء و رُسل کے حالات سے استشہاد فرمایا ہے. گویا کہ مسلمانوں کو بتایا جا رہا ہے کہ تم پہلی اُمت نہیں ہو ‘ نہ محمد اللہ کے پہلے رسول ہیں. جیسا کہ سورۃ الاحقاف میں رسول اللہ سے فرمایا گیا: قُلۡ مَا کُنۡتُ بِدۡعًا مِّنَ الرُّسُلِ یعنی اے نبیؐ ! کہہ دیجئے کہ مَیں کوئی نیا نویلا رسول نہیں ہوں. بہت سے رسول آپؐ سے پہلے آئے ہیں. یا جیسے سورۂ آل عمران میں فرمایا گیا : وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ یعنی ’’محمد( ) ایک رسول ہی تو ہیں اور آپؐ سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں‘‘. ان رسولوں کے ساتھ بھی یہ تمام حالات پیش آئے . ان پر ایمان لانے والوں کو بھی ان تمام گھاٹیوں سے گزرنا پڑا اور وہ ان تمام آزمائشوں کے مراحل سے دوچار ہوئے.چنانچہ ایک ایک کا نام لے کر بہت سے انبیاء و رُسل کا تذکرہ کیا گیا. سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر آیا اور اس ضمن میں خاص طور پر یہ بات نمایاں کی گئی کہ ان کی استقامت بے مثل تھی کہ انہوں نے ساڑھے نو سو برس اپنی قوم میں گزارے. مسلسل اعراض‘ مسلسل انکار‘ استہزاء اور تمسخر سے ان کا سابقہ رہا‘ لیکن ہمارا وہ بندہ ثابت قدم رہا.

پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی داستان آتی ہے. کون سی آزمائش ہے جس سے آپؑ نہیں گزرے . گھر سے انہیں نکالا گیا. مشرک باپ نے زجر و ملامت کے انداز میں ان سے کہا : 
لَئِنۡ لَّمۡ تَنۡتَہِ لَاَرۡجُمَنَّکَ وَ اہۡجُرۡنِیۡ مَلِیًّا ﴿۴۶﴾ یعنی ’’اے ابراہیم! اگر تم (میرے ان خداؤں کی مخالفت سے) باز نہ آئے تو میں تمہیں سنگسار کر دوں گا اور یہ کہ تم فی الفور میری نگاہوں سے دُور ہو جاؤ!‘‘پھر کون سا ایسا کٹھن مرحلہ ہے جو ان پر نہیں گزرا. بادشاہِ وقت کے دربار میں پیشی ان کی ہو رہی ہے‘ آگ کے الاؤ میں وہ جھونکے جا رہے ہیں‘ اپنا وطن خیر باد کہہ کر پوری زندگی ایک مسافرت کے عالَم میں وہ بسر کر رہے ہیں. آج یہاں ہیں‘ کل وہاں ہیں‘ کبھی شام کے بالائی علاقے میں ہیں‘ کبھی فلسطین میں آ کر ڈیرے لگائے ہیں تو کبھی مصر میں ہیں. حجاز میں دعوتِ توحید کا ایک مرکز تعمیر کیا ہے. دوسرے بیٹے کو فلسطین میں بٹھا دیا ہے. اللہ کا یہ بندہؑ اپنے اس یقین پر قائم ہے کہ اس کا تعلق اپنے گھر والوں سے نہیں‘ آباء و اجداد سے نہیں‘ کسی زمین سے نہیں‘ کسی وطن سے نہیں‘ اس کا تعلق صرف اور صرف خدائے واحد کے ساتھ ہے. اللہ کا وہ بندہ(علیہ الصلوٰۃ والسلام) اس آخری امتحان سے بھی گزرا کہ عین بڑھاپے کے عالَم میں دعائیں مانگ مانگ کر جو اکلوتا بیٹا لیا تھا اللہ نے اس کے ضمن میں بھی آزما لیا کہ کہیں اس کی محبت ابراہیم ؑ کے دل میں میری محبت سے زیادہ تو نہیں ہو گئی. تو یہ آزمائش اور امتحان تو اس راہ کا ایک مستقل ضابطہ اور قانون ہے‘ اس میں کوئی استثناء نہیں ہے‘ جو ادھر آئے گاآزمایا جائے گا . یہاں انبیاء و رُسل کے حالات کا ذکر گویا وَ لَقَدۡ فَتَنَّا الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ کی تفسیر ہے.