اللہ تعالیٰ کی طرف سے نوید جانفزا

یہ سورۂ مبارکہ ختم ہوتی ہے ایک ایسی نوید جانفزا پر جوہر اُس بندۂ مؤمن کے لئے ہے کہ جو اِس قسم کی کسی کشمکش میں عملاً مبتلا ہو اور صبر و مصابرت کے ان امتحانات سے اور آزمائشوں اور تکالیف کے اس دَور میں سے گزر رہا ہو. ایسے شخص کے لئے اس سے بڑی نوید جانفزا اور اس سے زیادہ قطعی یقین دہانی کی بات اور کوئی نہیں ہو سکتی. فرمایا:

وَ الَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿٪۶۹﴾ 
’’اور وہ لوگ جو ہماری راہ میں جہاد کریں گے ہم ان کے لئے اپنے راستے کھولتے جائیں گے .اور بے شک اللہ خوب کاروں کے ساتھ ہے.‘‘

پھر نوٹ کیجئے لفظ ’’جہاد‘‘ مَکّی سورت میں وارد ہوا ہے جب کہ ابھی قتال کا دُور دُور تک کہیں کوئی سوال نہیں تھا. یہ مجاہدہ‘ یہ کشمکش اور یہ تصادم درحقیقت نظریات کی سطح پر ہو رہا ہے. صبر کا صبر کے ساتھ مقابلہ ہو رہا ہے. وہ لوگ اپنے نظامِ باطل کے تحفظ میں اپنی قوّتوں کو مجتمع کر رہے ہیں‘ یہاں اہل ایمان ہیں جو اپنے ایمان کے لئے‘ اپنے ربّ کے کلمے اور اس کے دین کی سربلندی کے لئے جان توڑ کوششیں کر رہے ہیں. دینِ حق کے ان سرفروشوں سے ہمارا پختہ وعدہ ہے کہ 
لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا ؕ دیکھئے‘ یہاں تاکید کا وہی آخری اسلوب ہے. اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں بھی یہ صیغۂ تاکید بتکرار آیا ہے اور یہاں آخر میں پھر یہ اسلوب اختیار کیا گیا: لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا ؕ ’’ایسے لوگوں کے لئے ہم لازماً اپنے راستے کھولتے چلے جائیں گے‘‘. یہ ایک بہت اہم بات ہے‘ بہت اعلیٰ اور عمدہ وعدہ ہے جو مسلمانوں سے کیا جا رہا ہے. قدم بڑھاؤ تو سہی‘ آگے کی منزلوں کے بارے میں زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں‘ اللہ تمہاری انگلی پکڑ کر تمہیں اپنے راستے پر چلائے گا‘ تمہارے لئے وہاں سے راستے کھولے گا جہاں سے کوئی راستہ کسی کو نظر نہ آتا ہو گا.

نبی اکرم کی سیرت پر نگاہ ڈالئے‘ ہجرت سے قبل سن دس گیارہ نبوی میں بالکل ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کہیں کوئی راستہ دُور دُور تک نظر نہ آرہا ہو. مَکّہ سے مایوس ہو کر آپؐ طائف تشریف لے گئے. وہاں جو کچھ ہوا اور جس طور سے ہوا وہ سب کے علم میں ہے. زبانی مخالفت پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا‘ آپؐ پر پتھراؤ بھی کیا گیا‘ یہاں تک کہ جسمِ اطہر لہولہان ہو گیا. واپس آئے تو مَکّہ میں حالات اس درجے مخدوش تھے کہ ایک مشرک کی امان لے کر مَکّہ میں داخل ہوئے‘ اس لئے کہ آپؐ کے قتل کی سازش تیار ہو چکی تھی‘ تمام راستے گویا بند ہو چکے تھے‘ امید کی کوئی کرن دُور دُور نظر نہیں آتی تھی‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے گھر بیٹھے راستہ کھول دیا. مدینہ منورہ سے چھ افراد آئے اور ایمان لے آئے. اگلے سال بارہ آئے‘ بیعت ہو گئی.ا س سے اگلے سال بہتر (۷۲) یا پچھتر (۷۵) افراد آئے اور مشرف باسلام ہو گئے. گویا مدینہ منورہ کا دار الہجرت بننا مقدر ہو رہا ہے. اسے اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کے لئے ٹھکانہ اور جائے پناہ بنانے کا فیصلہ صادر فرما چکا ہے. وہاں محمد رسول اللہ کے قدم ہائے مبارک ابھی پہنچے بھی نہیں لیکن آپؐ کے استقبال کی وہاں تیاریاں ہو رہی ہیں اور ایمان کو تمکن حاصل ہو چکا ہے. یہ ہے اللہ کا وہ پختہ وعدہ جس کا عملی ظہور اس صورت میں ہوا. بندۂ مؤمن کا فرض یہ ہے کہ اپنے حالات کے مطابق جو کچھ وہ کر سکتا ہے کر گزرے‘ نتائج کو اللہ کے حوالے کرے. آئندہ کہاں سے راستہ نکلے گا‘ اس کے بارے میں اسے خود فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں. اللہ نے یہ چیز اپنے ذمے لے لی ہے لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا ؕ ’’اور ہم لازماً کھولتے چلے جائیں گے ان کے لئے اپنے راستے!‘‘ 

ooوآخر دعوانا ان الحَمد للّٰہ ربِّ العالمینoo