سیرتِ طیّبہ میں صبر و مصابرت کے مختلف ادوار

نحمدہٗ ونصلّی علٰی رَسولہِ الکریم … امَّا بَعد:
اعوذ باللّٰہ من الشَّیطن الرَّجیم . بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

وَ اتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنۡ کِتَابِ رَبِّکَ ۚؕ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ ۚ۟ وَ لَنۡ تَجِدَ مِنۡ دُوۡنِہٖ مُلۡتَحَدًا ﴿۲۷﴾وَ اصۡبِرۡ نَفۡسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ وَ لَا تَعۡدُ عَیۡنٰکَ عَنۡہُمۡ ۚ تُرِیۡدُ زِیۡنَۃَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ لَا تُطِعۡ مَنۡ اَغۡفَلۡنَا قَلۡبَہٗ عَنۡ ذِکۡرِنَا وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَ کَانَ اَمۡرُہٗ فُرُطًا ﴿۲۸﴾وَ قُلِ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ۟ فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّ مَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُرۡ ۙ اِنَّاۤ اَعۡتَدۡنَا لِلظّٰلِمِیۡنَ نَارًا ۙ اَحَاطَ بِہِمۡ سُرَادِقُہَا ؕ وَ اِنۡ یَّسۡتَغِیۡثُوۡا یُغَاثُوۡا بِمَآءٍ کَالۡمُہۡلِ یَشۡوِی الۡوُجُوۡہَ ؕ بِئۡسَ الشَّرَابُ ؕ وَ سَآءَتۡ مُرۡتَفَقًا ﴿۲۹
صدق اللہ العظیم

ہمارا آج کا درس اگرچہ صبر اور مصابرت فی سبیل اللہ کے نقطۂ نگاہ سے نبی اکرم کی حیاتِ طیبہ کے ایک خاص دَور اور آپؐ کی سیرتِ مطہرہ کے ایک اہم باب کے مطالعے سے متعلق ہے تاہم اس کے لئے سور ۃ الکہف کی یہ تین آیات (۲۷ تا ۲۹) عنوان کا درجہ رکھتی ہیں. ان آیاتِ مبارکہ کا ترجمہ کچھ یوں ہے:

’’ اور تلاوت کرتے رہو (اس کلام کی) جو کہ وحی کیا گیا ہے تمہاری جانب تمہارے پروردگار کی کتاب میں سے. اُس کی باتوں کا بدلنے والا کوئی نہیں. اور تم اس کے سوا اپنے لئے کوئی اور پناہ گاہ نہ پا سکو گے. اور روکے رکھو اپنے 
آپ کو ان لوگوں کے ساتھ جو پکارتے ہیں اپنے ربّ کو صبح و شام ‘ جو اس کی رضا جوئی ہی کے خواہاں ہیں‘ اور تمہاری آنکھیں ان سے متجاوز نہ ہوں‘ دُنیوی زندگی کی زینت کی طلب میں. اور مت کہنا مانو اس کا جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جو پیروی کر رہا ہے اپنی خواہش نفس کی اور اس کا معاملہ حدود سے تجاوز پر مبنی ہے. اور کہہ دو کہ یہ سراسر حق ہے تمہارے ربّ کی جانب سے‘ تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے. ہم نے تیار کی ہے ان ظالموں کے لئے ایک بڑی آگ‘ اس کی قناتیں انہیں اپنے گھیرے میں لیں گی. اور اگر یہ فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی ایسے پانی سے کی جائے گی جو کھولتے ہوئے تانبے کی مانند ہو گا ‘ جو جھلس کر رکھ دے گا ان کے چہروں کو. بہت ہی بری ہو گی وہ پینے کی چیز اور بہت ہی برا ہو گا وہ انجام جس سے وہ دوچار ہوں گے.‘‘

یہ بات سابقہ درس میں واضح کی جا چکی ہے‘ اور ویسے بھی اس منتخب نصاب کے بحیثیتِ مجموعی مطالعے سے یہ بات بالکل مبرہن ہو چکی ہے کہ قرآن مجید کی دعوت ایک انقلابی دعوت ہے دعوتِ ایمان یعنی اللہ‘ آخرت اور رسالت پر ایمان کی بنیاد پر ایک بھرپور انقلابی دعوت. بقول حالی ؎ 

وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادیؐ 
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلا دی! 

پھر اس دعوت کی بنیاد پر ایک مضبوط جماعت کی تشکیل اور ا س کی تربیت ‘ پھر ماحول سے تصادم کا معاملہ‘ پھر اس تصادم کا مختلف ادوار سے گزر کر اللہ کے دین کے غلبے اور اس کے بالفعل نفاذ و قیام پر منتج ہونا‘ یہ ہے خلاصہ اور لب لباب اس عملی جدوجہد کا جس کا نقشہ ہمیں سیرتِ طیبہ میں نظر آتا ہے اور جس کے خطوط ہمیں آیاتِ قرآنی میں ملتے ہیں. حقیقت یہ ہے کہ محض دعوت و تبلیغ اور وعظ و نصیحت سے یہ معاملہ نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہے. مجرد دعوت و تبلیغ کے کام میں یا بدھ مت کے بھکشوؤں کے مانند صرف اخلاقی تعلیمات کی نشر و اشاعت میں وہ مراحل نہیں آیا کرتے جو کسی انقلابی دعوت میں آتے ہیں. نبی اکرم کی دعوت کا اٹھان آغاز ہی سے ایک انقلابی دعوت کا تھا. یہ بات اس سے قبل عرض کی جا چکی ہے کہ اس کے خلاف پہلا ردعمل اس وقت کے ماحول کی جانب سے استہزا اور تمسخر کی شکل میں ہوا‘ چٹکیوں میں بات کو اڑانے کی کوشش کی گئی. چنانچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سب سے پہلی تلقین جو آنحضور کو کی گئی وہ یہی تھی کہ اے نبی! جو کچھ یہ کہہ رہے ہیں اس پر آپ صبر کیجئے‘ اسے جھیلئے اور ثابت قدم رہئے:

وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ وَ اہۡجُرۡہُمۡ ہَجۡرًا جَمِیۡلًا ﴿۱۰﴾ (المزمل: ۱۰

سابقہ درس میں یہ بات بھی بیان ہوئی تھی کہ اگرچہ حضور کی دعوت کا رخ اس وقت کی سوسائٹی کے اعلیٰ ترین طبقات کی طرف تھا لیکن ابتداء ً جن لوگوں نے اس دعوت پر لبیک کہا ان میں ایک بڑی تعداد غلاموں اور نوجوانوں کے طبقے سے تھی. چنانچہ اس معاشرے میں تشدد اور ایذا (Persecution) کا اوّلین ہدف یہی دو طبقات بنے. تشدد اور ایذا رسانی کا یہ معاملہ سن چار تا چھ نبوی کے دوران اپنی پوری انتہا کو پہنچا اور اسی کے نتیجے کے طور پر مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت ملی. ہجرتِ حبشہ سے وقتی طور پر حالات میں بہتری پیدا ہوئی جیسے کہ کسی بوائلر سے اگر بھاپ خارج ہو جائے تو اس کی اندر کی ہلچل میں سکون کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے. چونکہ بہت سے مسلمان ہجرت کر گئے لہذا کشمکش اور تصادم کی وہ فضا وقتی طور پر کچھ ٹھنڈی پڑی اور مختلف گھرانوں میں اہل ایمان پر تشدد کا جو معاملہ جاری تھا اس کی شدت میں کچھ کمی واقع ہوئی. لیکن اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ اب ساری مخالفت مرتکز ہو گئی خود محمد رسول اللہ کی ذاتِ گرامی پر!