یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ نبی اکرمﷺ کے ساتھ وہ معاملہ بہرحال نہ ہو سکتا تھا جو حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوا یا جو حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ اور آلِ یاسر رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ پیش آیا. یہ بات روایات سے ثابت ہے کہ جس وقت آلِ یاسر ( رضوان اللہ علیہم اجمعین) پر ابوجہل دست درازیاں کرتا اور انہیں تشدد کا نشانہ بناتا تھا ‘ حضورﷺ کا اگر ان کے سامنے سے گزر ہوتا تو آپ انہیں صبر اور استقامت کی تلقین فرماتے. گویا صبر کا وہ حکم جو آنحضورﷺ کو اللہ کی جانب سے پیہم مل رہا تھا آپؐ اسی کو ان الفاظ میں آلِ یاسر (رضی اللہ عنہم) کی جانب منتقل فرما دیتے تھے کہ : اِصْبِرُوْا یَا آلَ یَاسِرَ فَاِنَّ مَوْعِدَکُمُ الْجَنَّۃُ ’’ کہ اے یاسر کے گھر والو!صبر کرو‘ اور اطمینان رکھو کہ تمہارے وعدے کی جگہ جنت ہے‘‘. لیکن ظاہر بات ہے کہ اس طرح کے جسمانی تشدد کا کوئی معاملہ شخصاً محمد رسول اللہﷺ کے ساتھ کرنا ممکن نہ تھا. اس کی وجہ بھی سمجھ لیجئے! دیکھئے اللہ تعالیٰ کی حکمت بھی کامل ہے اور قدرت بھی. وہ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیۡدُ ﴿ؕ۱۶﴾ ہے. وہ جو کرنا چاہتا ہے اس کے لئے مناسب حالات پیدا فرماتا ہے. جس طرح حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہاکی دولت حضورﷺ کے ظاہری غنا اور خوشحالی کا سبب بن گئی وَ وَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغۡنٰی ؕ﴿۸﴾ کہ مَکّے کی متمول ترین خاتون آپؐ کے حبالۂ عقد میں آئیں اور انہوں نے اپنا سب کچھ آپؐ کے قدموں میں ڈال دیا‘ اسی طرح حکمت ِ خداوندی نے مَکّے کی اس قبائلی زندگی میں نبی اکرمﷺ کو ایک اور اعتبار سے بھی تحفظ عطا فرمایا تھا.
یہ بات ذہن میں رہے کہ سیرتِ مطہرہ کا یہ ایک اہم پہلو ہے کہ حضورﷺ کے دادا عبدالمطلب کی زندگی میں پورے قبیلۂ قریش میں بنو ہاشم کو ایک فیصلہ کن اہمیت اور حیثیت حاصل تھی. بنو ہاشم کی سرداری کا منصب عبدالمطلب کو حاصل تھا جو بے پناہ شخصی وجاہت کے حامل تھے.
ان کے انتقال کے بعد حضورﷺ کے تایا زبیر جانشین بنے اور بنی ہاشم کے سردار قرار پائے. اکثر لوگ اس بات سے لا علم ہیں کہ دادا کے انتقال کے بعد حضورﷺ کی کفالت اصلاً آپ کے تایا زبیر نے کی. وہ بھی اپنی ذاتی شخصیت کے اعتبار سے اس حیثیت کے مالک تھے کہ انہوں نے بنو ہاشم کی سیادت کو برقرار رکھا. ان کے انتقال کے بعد بنو ہاشم میں شخصی وجاہت اور ذاتی حیثیت کے اعتبار سے کوئی ایسا شخص موجود نہ تھا کہ جو قریش میں بنو ہاشم کی سیادت کا سکہ منوا لیتا. بہرحال وہ سیادت جیسی کچھ بھی تھی‘ ابو طالب کے ہاتھ آئی. ابو طالب اگرچہ نبی اکرمﷺ پر مرتے دم تک ایمان نہیں لائے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں حضورﷺ کی محبت انتہائی درجے میں جاگزیں کر دی تھی‘ جس کی وجہ سے خاندان بنی ہاشم کا تعاون یا یوں کہہ لیجئے کہ ان کی جانب سے ایک حمایت ‘جو اس قبائلی معاشرے میں بڑی اہمیت کی حامل تھی‘ نبی اکرمﷺ کو حاصل رہی. چنانچہ مشرکینِ مَکّہ کے لئے نبی اکرمﷺ کے خلاف اس طرح کا معاملہ کرنا ممکن نہ تھا جس طرح کہ حضرت بلالؓ ‘یا حضرت خبابؓ یا آلِ یاسرؓ کے ساتھ ہوا. اکا دکا واقعات ضرورملتے ہیں‘ مثلاً ایک مرتبہ آپؐ حرم میں نماز پڑھ رہے تھے ‘ ابوجہل کچھ فاصلے پر موجود تھا‘ اس نے اپنے ہم نشینوں سے یہ بات کہی کہ ہے کوئی شخص جو اِن کی خبر لے! عقبہ بن ابی معیط اٹھا اور اس نے ایک چادر کو بل دے کر اسے ایک پھندے کی شکل میں حضورﷺ کے گلے میں ڈالا اور اس کے دونوں سروں کو اس طرح کھینچا کہ حضورﷺ کی آنکھیں ابل آئیں. حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اطلاع ہوئی تو وہ دوڑے ہوئے آئے. انہوں نے فرمایا : اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰہُ ’’بدبختو !کیا تم ایک شخص کو صرف اس جرم کی پاداش میں قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ یہ کہتا ہے کہ میرا ربّ اللہ ہے!‘‘ لوگوں نے حضورﷺ کو تو چھوڑ دیا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پیٹنا شروع کیا. اتنا مارا کہ یہ سمجھ کر چھوڑا کہ اب یہ ہلاک ہو چکے ہیں. اسی طرح کا ایک اور معاملہ بھی پیش آیا. حضورﷺنماز پڑھ رہے تھے‘ ابوجہل نے اسی عقبہ بن ابی معیط کو اشارہ کیا اور وہ ایک اونٹ کی نجاست بھری اوجھڑی اٹھا کر لایا اور جب حضورﷺ سجدے میں گئے تو اس نے وہ اوجھڑی آپؐ کی گردن پر رکھ دی . اس طرح کی ایذا رسانی اور اس نوع کے معاملات اکا دکا نبی اکرم ﷺ کے ساتھ پیش آتے تھے. کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ صبح آپﷺ گھر سے نکلتے توابولہب اور اس کی بیوی آپؐکے دروازے کے سامنے کانٹے بچھا دیتے تھے‘ یا یہ کہ آپؐ کسی گلی سے گزر رہے ہیں اور کسی نے اوپر سے راکھ یا خاک آپؐ کے سر پر ڈال دی.