اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قریش کی جانب سے اب نبی اکرمﷺ اور بنی ہاشم کے خلاف ایک متفقہ اقدام ہوا جس کے نتیجے میں یہ طے کیا گیا کہ بنی ہاشم سے کامل مقاطعہ کیا جائے. کوئی خرید و فروخت‘ کوئی لین دین اب ان کے ساتھ نہ کیا جائے اور ہر نوع کا تعلق منقطع کر لیا جائے. یہ ایک نوع کا Socio-economic بائیکاٹ تھا جس نے تین سال کی ایک قید کی شکل اختیار کی. سن سات نبوی سے شروع ہو کر سن دس نبوی تک یہ سلسلہ جاری رہا. ایک گھاٹی میں جسے شعب بنی ہاشم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے‘ یہ خاندان بنو ہاشم محصور و مقید تھا. مکمل ناکہ بندی تھی‘ کوئی چیز اندر داخل نہیں ہو سکتی تھی‘ کوئی لین دین ممکن نہیں تھا. کچھ نیک دل لوگ کہیں رات کی تاریکیوں میں چھپ چھپا کر کبھی کبھار کھانے پینے کی کوئی چیز پہنچانے میں کامیاب ہو جاتے تھے ورنہ یہ کہ پورا پہرا موجود تھا. یہ ہے سخت ترین قید کی وہ کیفیت کہ جس کے دوران ایسا وقت بھی آیا کہ اس ’’وادیٔ غیر ذی زرع ‘‘ میں جو جھاڑیاں وغیرہ تھیں ان کے پتے چٹ کر لئے گئے. نوبت یہاں تک پہنچی کہ بنی ہاشم کے بلبلاتے بچوں کو اس کے سوا اور کچھ میسر نہیں تھا کہ سوکھے چمڑے ابال کر ان کا پانی ان کے حلق میں ٹپکا دیا جائے. بہرحال نبی اکرمﷺ اور آپ کے ساتھ خاندانِ بنی ہاشم نے اس سختی کو جھیلا اور برداشت کیا. یہ اسی صبر و مصابرت کا معاملہ تھا کہ مقابلے میں ہاتھ نہیں اٹھائے جا رہے‘ لیکن اپنے موقف پر اسی طرح ڈٹے ہوئے ہیں کہ ایک انچ پیچھے ہٹنے کا کوئی سوال نہیں.
کچھ صلح پسند اور نیک دل لوگوں کی مداخلت سے سن دس (نبوی) میں یہ مقاطعہ ختم ہو جاتا ہے. اخلاقی طور پر کفار کو اس معاملے میں شکست ہوئی‘ اس لئے کہ حضوراکرمﷺ نے اپنے موقف میں کوئی نرمی اور کوئی لچک پیدا نہیں کی‘ آپ ﷺ نے اور آپؐ کے خاندان نے ہر سختی کو جھیلا اور تکلیف کو برداشت کیا. بالآخر یہ مقاطعہ ختم ہوا.