شخصی ابتلاء کا نقطۂ عروج : یوم طائف

لوگوں کی طرف سے ڈالی ہوئی آزمائش کا سلسلہ کچھ کم ہوا تواللہ کی طرف سے ایک براہ راست آزمائش بھی آپ کی منتظر تھی. اس پہلو سے گویا شخصاً نبی اکرم کے لئے آزمائش کا معاملہ نقطۂ عروج کو پہنچ گیا. سن دس نبوی میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ کا بھی انتقال ہو جاتا ہے اور ابوطالب کا بھی. گھر میں دلجوئی کرنے والی رفیقۂ حیات تھی‘ وہ بھی نہ رہی اور خاندانی اعتبار سے سہارا دینے والا ایک پشت پناہ تھا‘ ابو طالب‘ وہ بھی رخصت ہوا. سرداران قریش کے حوصلے یکدم بلند ہو گئے. مشورے ہونے لگے کہ اب وقت ہے کہ آخری فیصلہ کر ڈالا جائے‘ آخری اقدام اب کر دیا جائے. نبی اکرم اس صورتِ حال کو دیکھ کر مَکّے سے مایوس ہو کر طائف کا سفر کرتے ہیں. عام راستہ آپؐ نے اختیار نہیں کیا‘ اندیشہ تھا کہ آپؐ کی جان لینے کی کوشش کی جائے گی. چنانچہ ایک نہایت دشوار گزار راستہ اختیار کیا. صرف ایک غلام‘ حضرت زید رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے. طائف پہنچ کر آپؐ نے وہاں کے جو تین بڑے سردار تھے‘ ان تینوں سے ملاقات کی‘ لیکن ہر طرف سے انتہائی دل کو توڑ دینے والا جواب سننے کو ملا. سب نے استہزا ‘ تمسخر اور مذاق کا نشانہ بنایا.

ایک نے نہایت تمسخر آمیز لہجے میں کہا (معاذ اللہ‘ نقلِ کفر کفر نباشد) کہ میں تم سے بات بھی نہیں کرنا چاہتا‘ اگر تم جھوٹے ہو تو منہ لگانے کے قابل نہیں اور اگر سچے ہو تو ہو سکتا ہے میں کہیں توہین کر بیٹھوں اور اللہ کے نبی کی توہین میرے لئے وبالِ جان بن جائے‘ لہذا آپ تشریف لے جائیے! کسی نے کہا کہ کیا اللہ کو آپ کے سوا کوئی نہیں ملا تھا نبوت اور رسالت کے لئے؟ اسی طرح کے دل توڑ دینے والے اور جگر چھلنی کر دینے والے جواب سن کر نبی اکرم لوٹنے کا ارادہ فرما رہے تھے کہ وہ لوگ کچھ اوباش لوگوں کو اشارہ کرتے ہیں کہ ذرا ان کی خبر لو. پھر وہ نقشہ جمتا ہے جس کو بیان کرتے ہوئے زبان لڑکھڑاتی ہے. طائف کی گلیاں ہیں‘اللہ کا رسولؐ ہے اوربعینہٖ وہی نقشہ ہے جو ہماری آبادیوں میں کبھی کبھار دیکھنے میں آتا ہے کہ جیسے کوئی دیوانہ شخص ہو اور اوباش چھوکرے چاروں طرف سے اسے کنکریاں مار رہے ہوں‘ ہنسی مذاق ہو رہا ہو‘ فقرے چست کئے جا رہے ہوں . طائف کی گلیوں میں محمد رسول اللہ پر پتھر برسائے جا رہے ہیں‘ خاص طور پر ٹخنوں کی ہڈیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کے تصور ہی سے لرزہ طاری ہو جاتا ہے‘ جسمِ مبارک لہولہان ہو گیا ہے‘ خون بہہ رہا ہے اور نعلین میں آ کر جم گیا ہے. ایک وقت ایسا بھی آیا کہ نقاہت کی وجہ سے آپؐ بیٹھ جاتے ہیں تو غنڈے آگے بڑھتے ہیں‘ ایک داہنی بغل میں ہاتھ ڈالتا ہے دوسرا بائیں میں‘ اٹھا کر کھڑا کر دیتے ہیں کہ چلو!! طائف کی گلیوں میں کیا کچھ نہیں ہوا حضور کے ساتھ! .... گویا ؎ 

اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے سو گزری
تنہا پسِ زنداں کبھی رسوا سرِ بازار 

کئی برس بعد مدنی دور میں ایک بار حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے سوال کیا کہ کیا آپ( )پر یومِ اُحد سے زیادہ سخت بھی کوئی دن گزرا ہے؟ اس لئے کہ ان کی ہوش میں حیاتِ طیبہ کا سخت ترین دن یومِ اُحد تھا جس میں آپ کے دندانِ مبارک شہید ہوئے‘ زیادہ خون بہہ جانے کے باعث ضعف و نقاہت سے آپ پر بے ہوشی بھی طاری ہوئی‘ آپؐ کے انتہائی قریبی عزیز اور جان نثار ساتھیوں کی لاشیں آپؐ کی نگاہوں کے سامنے آئیں. اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے اسی حوالے سے آپؐ سے سوال کیا تھا کہ اس سے بھی زیادہ کوئی سخت دن آپؐ پر گزرا ہے؟ آپؐنے فرمایا ، ہاں‘ طائف کا دن مجھ پر اس سے کہیں زیادہ بھاری تھا. اُحد کے دامن میں تو وہ جان نثار بھی آپؐ کے ساتھ تھے جنہوں نے آپؐ کی حفاظت کے لئے جسموں کو ڈھال بنایا ہوا تھا. طائف میں سوائے ایک غلام کے اور کوئی آپؐ کے ساتھ نہیں تھا. گویاآپؐ بالکل یکہ و تنہا تھے اور طائف کی گلیوں میں نقشہ وہ جما جس کے تصور سے لرزہ طاری ہوتا ہے. چنانچہ طائف سے واپسی پر ایک جگہآپ آرام کے خیال سے ذرا بیٹھے تو اس وقت آپ کی زبان پر جو دعا آئی اس نے یقینا عرش کو ہلا کر رکھ دیا ہو گا. اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُوَّتِیْ وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَھَوَ انِی عَلَی النَّاسِ ’’اے اللہ! تیری ہی جناب میں شکوہ لے کر آیا ہوں اپنی قوت کی کمی کا‘ اپنے وسائل و ذرائع کی قلت کا اور اس اہانت و رسوائی کا جو لوگوں کے سامنے ہوئی.‘‘ اِلٰی مَنْ تَکِلُنِیْ ’’اے پروردگار! تُو نے مجھے کس کے حوالے کر رکھا ہے‘‘. اِلٰی بَعِیْدٍ یَجْھَمُنِیْ اَوْ اِلٰی عَدُوٍّ مَلَکْتَ اَمْرِیْ ’’ کیا میرا معاملہ دشمن کے حوالے کر دیا ہے کہ جو چاہے میرے ساتھ کر گزرے؟‘‘ اِنْ لَّمْ یَکُنْ عَلَیَّ غَضَبُکَ فَلَا اُبَالِیْ ’’ اگر تُو ناراض نہیں ہے تو مجھے کوئی پرواہ نہیں ‘‘. اگر تجھے یہی منظور ہے‘ یہی پسند ہے تو سرِ تسلیم خم ہے. اَعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْھِکَ الَّذِیْ اَشْرَقَتْ لَہُ الظُّلُمَاتُ ’’ پروردگار! میں تیرے ہی روئے انور کی ضیا ٔ کی پناہ میں آتا ہوں جس سے تمام تاریکیاں چھٹ جاتی ہیں.‘‘

یوم طائف کے حوالے سے مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ نے بہت صحیح نکتہ بیان کیا ہے کہ شخصی اور ذاتی اعتبار سے طائف کا یہ دن محمد رسول اللہ کے لئے ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے. گویا آنحضور کی ذات کی حد تک ابتلاء و آزمائش کا معاملہ اس آخری انتہا کو پہنچ گیا جس کا ذکر سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۱۴ میں آیا ہے : مَسَّتۡہُمُ الۡبَاۡسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلۡزِلُوۡا حَتّٰی یَقُوۡلَ الرَّسُوۡلُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ مَتٰی نَصۡرُ اللّٰہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصۡرَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ ﴿۲۱۴﴾ یہ ابتلاء و آزمائش کا وہ نقطۂ عروج ہے جس کے بعد اللہ کی مدد آتی ہے. چنانچہ روایات میں آتا ہے اسی وقت مَلَک الجبال ‘ یعنی وہ فرشتہ جو پہاڑوں پر مامور ہے‘ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا‘ اس نے عرض کیا کہ اللہ نے مجھے بھیجا ہے‘ اگر آپؐ حکم دیں تو میں طائف کے چاروں طرف کے پہاڑوں کو آپس میں ٹکرا دوں کہ طائف کے رہنے والے سرمہ بن جائیں. آپؐ نے فرمایا نہیں‘ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ ان کی آئندہ نسلوں کو ہدایت سے نواز دے اور انہیں اسلام لانے کی توفیق عطا فرما دے. بہرحال یومِ طائف نبی اکرمکے لئے ذاتی اعتبار سے سخت ترین دن تھا کہ اس روز صبر و مصابرت کا مرحلہ آپؐ کے لئے گویا نقطۂ عروج پر پہنچ گیا تھا. پھر اسی سال آپ کی رفیقۂ حیات اُمّ المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کا بھی انتقال ہو گیا اور دنیا میں سہار ا دینے والے چچا ابو طالب بھی انتقال کر گئے. چنانچہ سن دس نبوی کو حضور نے ’’عام الحزن ‘‘ سے تعبیر کیا ‘یعنی رنج و غم اور افسوس کا سال.

طائف سے واپس جب آپ مَکّے پہنچے تو حالات اتنے مخدوش تھے کہ مَکّے میں داخلہ ممکن نہ تھا. آپؐ نے مَکّہ کے ایک مشرک سردار مطعم بن عدی کو پیغام بھیجا کہ اگر تم مجھے اپنی پناہ میں لے لو تو میں مَکّے میں داخل ہو سکتا ہوں. اس نے کہا ٹھیک ہے‘ میں آپؐ کو حمایت کا یقین دلاتا ہوں. حضور نے دوبارہ پیغام بھجوایا کہ اس طرح نہیں‘ تم خود آؤ اور مجھے لے کرجاؤ. حالات اس درجے ناموافق اور نامساعد ہو چکے ہیں کہ مطعم بن عدی اپنے چھ بیٹوں کو لے کر ہتھیار لگا کر آتا ہے اور نبی اکرم  کو لے کر مَکّہ میں داخل ہوتا ہے . اس کے بعد البتہ حالات کا رخ بدلتا ہے اور بظاہر مایوسی و ناامیدی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں امید کے دیئے روشن ہونے لگتے ہیں!