اس دور میں ایسے محسوس ہوتا ہے کہ مصالحت کی ایک بھرپور کوشش ہوئی جس میں ولید بن مغیرہ نے مرکزی کردار ادا کیا. بالکل ابتدائی سورتوں میں سورۂ مدثر اور سورۂ نون (جسے سورۃ القلم بھی کہتے ہیں) مشرکین میں سے جس نمائندہ کردار کا مذمت کے انداز میں ذکر ہے وہ جامہ ولید بن مغیرہ پر ہی راست آتا ہے. یہ شخص بالکل آغاز ہی میں دل سے قائل ہو چکا تھا کہ محمد (ﷺ )حق پر ہیں. حقیقت اس پر منکشف ہو چکی تھی. ایک وقت وہ بھی آیا تھا کہ اس کے ساتھیوں کو یہ خطرہ ہو گیا تھا کہ اس پر محمدؐ کا جادو چل گیا ہے‘ لیکن مصلحتوں ‘ مفادات اور چودھراہٹ کی بیڑیاں اس کے پاؤں میں پڑی رہ گئیں اور وہ محروم رہا. لیکن بعد میں محسوس یہ ہوتا ہے کہ مسلسل اس کی یہ کوشش رہی کہ کوئی مصالحت ہو جائے. چنانچہ یہ وہ وقت ہے کہ جس کے دوران وہ مصالحانہ کوششیں پوری شدت کو پہنچ گئیں. اس ضمن میں چند واقعات ملتے ہیں اور آج کے درس کے لئے جن آیات کو عنوان بنایا گیا تھا ان کا مضمون بھی اسی سے متعلق ہے. کسی دا عی ٔ حق کے لئے یہ مصالحت کا دامِ ہم رنگِ زمین انتہائی خطرناک ہوتا ہے. یہ معاملہ وہ ہے کہ اس میں اگرچہ براہ راست مقابلے یا مخالفت کی فضا نہیں ہوتی اور بظاہر انداز میٹھا ہوتا ہے لیکن اگر کہیں اس دامِ ہم رنگ زمین میں کوئی داعی ٔ حق گرفتار ہو جائے تو لامحالہ اس کی منزل کھوٹی ہو جائے گی اور معاملہ ختم ہو جائے گا. مَکّے میں جو حالات تھے ان کے پیش نظر بر بنائے طبع بشری آپؐ کا ان سے متاثر ہونا سمجھ میں آتا ہے. آپؐ جانتے تھے کہ اگر ان سرداروں میں سے کوئی ایمان لے آئے تو اس سے ایمان او ر اسلام کے لئے راستے کھل جائیں گے اور یہ چیز اہل ایمان کے لئے بہت تقویت کا باعث ہو گی‘ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام سے اہلِ ایمان کو دُنیوی اعتبار سے سہارا ملا. یہی وہ بات تھی کہ جس کے تحت جب یہ سردارانِ قریش آپؐ کے پاس مصالحانہ گفتگو کے لئے آتے تھے تو حضورﷺ پذیرائی فرماتے اور ان کی جانب ملتفت ہوتے. اسی سلسلے میں وہ واقعہ پیش آیا کہ جس کے ضمن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ گرفت بھی ہوئی. ایک نابینا صحابی عبداللہ بن اُمّ مکتوم رضی اللہ عنہ ایک بار ایسے وقت حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جب آپؐ سردارانِ قریش سے گفتگو فرما رہے تھے‘ حضرت عبداللہؓ بار بار حضورﷺ کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کرتے‘ جس پر حضورﷺکے چہرے پر کسی قدر ناگواری کے آثار ظاہر ہوئے. سورۃ عبس کے آغاز میں اسی واقعے کا حوالہ ہے:
عَبَسَ وَ تَوَلّٰۤی ۙ﴿۱﴾اَنۡ جَآءَہُ الۡاَعۡمٰی ؕ﴿۲﴾وَ مَا یُدۡرِیۡکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰۤی ۙ﴿۳﴾اَوۡ یَذَّکَّرُ فَتَنۡفَعَہُ الذِّکۡرٰی ؕ﴿۴﴾اَمَّا مَنِ اسۡتَغۡنٰی ۙ﴿۵﴾فَاَنۡتَ لَہٗ تَصَدّٰی ؕ﴿۶﴾وَ مَا عَلَیۡکَ اَلَّا یَزَّکّٰی ؕ﴿۷﴾وَ اَمَّا مَنۡ جَآءَکَ یَسۡعٰی ۙ﴿۸﴾وَ ہُوَ یَخۡشٰی ۙ﴿۹﴾فَاَنۡتَ عَنۡہُ تَلَہّٰی ﴿ۚ۱۰﴾کَلَّاۤ اِنَّہَا تَذۡکِرَۃٌ ﴿ۚ۱۱﴾فَمَنۡ شَآءَ ذَکَرَہٗ ﴿ۘ۱۲﴾
’’ تیوری چڑھائی اور رخ پھیر لیا کہ ان کی خدمت میں ایک نابینا حاضر ہوا. اور تمہیں کیا معلوم شاید کہ وہ پاکیزگی حاصل کرتا یا نصیحت اخذ کرتا تو وہ نصیحت اس کے لئے فائدہ بخش ہوتی . اور وہ کہ جو بے پروائی اختیار کرتا ہے تو تم اس کے پیچھے پڑے ہوئے ہو ( یعنی سردارانِ قریش کی جانب آپؐ خصوصی التفات فرماتے اور آپ کی کوشش ہوتی کہ وہ ایمان لے آئیں) اور جو چل کر آتا ہے اور جس کے دل میں خشیت ہے (تزکیہ حاصل کرنے کی طلب ہے) تو تم اس سے اعراض کرتے ہو. ہر گز نہیں ‘ یہ تو بس ایک یاددہانی ہے‘ تو جو چاہے اس نصیحت کو اخذ کرے‘ (اس سے فائدہ اٹھا لے)‘‘.