جواباً نبی اکرم  سے کہلوایا گیا : قُلۡ مَا یَکُوۡنُ لِیۡۤ اَنۡ اُبَدِّلَہٗ مِنۡ تِلۡقَآیِٔ نَفۡسِیۡ ۚ اے نبی! کہہ دیجئے‘ میرے لئے ہر گز ممکن نہیں ہے کہ میں اسے اپنے جی سے بدل دوں‘ اپنی مرضی سے اس میں کوئی ترمیم کر دوں . اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ ۚ میں تو خود پابند ہوں اس کا کہ جو مجھ پر وحی کیا جا رہا ہے. اِنِّیۡۤ اَخَافُ اِنۡ عَصَیۡتُ رَبِّیۡ عَذَابَ یَوۡمٍ عَظِیۡمٍ ﴿۱۵﴾ اگر میں اپنے ربّ کی نافرمانی کروں تو مجھے تو خود اندیشہ ہے اپنے پروردگار کی طرف سے ایک بہت بڑے دن کی سزا کا.
یہ مضمون قرآن حکیم میں ایک سے زائد مرتبہ آیا ہے ‘لیکن جیسا کہ قرآن مجید میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہر مضمون کے لئے کوئی ایک مقام ایسا ہوتا ہے کہ جہاں وہ مضمون اپنے نقطۂ کمال کو پہنچ جاتا ہے‘ اسی طرح اس مضمون کا ذروۃ السنام یا نقطۂ کمال 
(Climax) سورۂ بنی اسرائیل کے وسط میں ملتا ہے. آیت نمبر ۷۳ سے بات شروع ہوتی ہے: وَ اِنۡ کَادُوۡا لَیَفۡتِنُوۡنَکَ عَنِ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ لِتَفۡتَرِیَ عَلَیۡنَا غَیۡرَہٗ ٭ۖ اور اے نبی! یہ لوگ تو اس پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں کہ کسی طرح آپؐ کو بچلا دیں اس چیز کی طرف سے جو ہم نے آپؐ کی جانب وحی کی ہے (یعنی قرآن حکیم)‘ تاکہ آپؐ اس کے سوا کوئی چیز اپنے پاس سے گھڑ کر ہماری طرف منسوب کر دیں. وہ تو آپ پر پورا دباؤ ڈال رہے ہیں اور اپنی پوری قو ّتیں اس پر صرف کر رہے ہیں کہ کسی طرح آپ ؐ کو اس موقف سے ہٹا کر مصالحت پر آمادہ کر دیں کہ کچھ لے دے کر بات بن جائے اور کوئی ایسی بات اللہ کی طرف منسوب کر دی جائے کہ جس سے ان کے مشرکانہ موقف کی بھی تائید ہوتی ہو. فرمایا : وَ اِذًا لَّاتَّخَذُوۡکَ خَلِیۡلًا ﴿۷۳﴾ اور اگر آپؐ ایسا کر لیں تو پھر تو وہ آپؐ کو اپنا دوست بنا لیں گے‘ جھگڑے اور اختلاف کا خاتمہ ہو جائے گا. 

اگلی آیت اس مضمون کے اعتبار سے بہت اہم ہے: 
وَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ ثَبَّتۡنٰکَ لَقَدۡ کِدۡتَّ تَرۡکَنُ اِلَیۡہِمۡ شَیۡئًا قَلِیۡلًا ﴿٭ۙ۷۴﴾ اور اے نبی!اگر ہم ہی نے آپؐ کو ثبات عطا نہ کیا ہوتا تو کچھ بعید نہ تھا کہ آپؐان کی جانب کچھ تھوڑا سا جھک ہی جاتے .یہ ہے طبعِ بشری کا وہ تقاضا اور حالات سے متاثر ہونے کا امکان جس کا واضح ذکر یہاں موجود ہے. جب چاروں طرف سے راستہ بند نظر آتا ہو تو امکانی طور پر یہ بات ذہن میں آ سکتی ہے کہ وقتی طور پر اگر کچھ تھوڑی بہت مصالحت کر کے کام نکال لیا جائے تو اس میں کیا حرج ہے‘ پھر جب حالات ہمارے کنٹرول میں آجائیں گے تو ہم پھر اپنے اصل موقف کی طرف رجوع کر جائیں گے. اسی امکان کا دروازہ بند کرنے کے لئے قرآن حکیم میں حضور کو مختلف اسالیب میں صبر کرنے اور ثابت قدم رہنے کی تاکید کی گئی ہے. سورۃ النحل کے آخر میں فرمایا: وَ اصۡبِرۡ وَ مَا صَبۡرُکَ اِلَّا بِاللّٰہِ کہ اے نبی! صبر کیجئے اور آپؐ کا صبر اللہ ہی کے سہارے ہے. آپؐ کے صبر کے لئے اصل سہارا اللہ ہی کی ذات ہے.اللہ پر بھروسہ‘ اُس پر توکل اور ’’ تفویض الامر الی اللّٰہ‘‘ ہی درحقیقت بندۂ مؤمن اور بالخصوص داعی ٔ حق کے صبر کی اساس اور جڑ بنیاد ہے.

اگلی آیت میں الفاظ کی ظاہری سختی پر ذرا نظر کیجئے‘ اسی سختی اور درشتی کا رخ اصل میں کفار کی طرف ہے‘ کان ان کے کھولے جا رہے ہیں‘ انہیں سنایا جا رہا ہے کہ ہمارے نبیؐ سے اس بات کی توقع نہ رکھو کہ وہ تمہاری باتوں میں آ کر اللہ کے کلام میں تغیر و تبدل کی جسارت کریں گے‘ لیکن ظاہراً خطاب یہاں حضور کی طرف ہے: 
اِذًا لَّاَذَقۡنٰکَ ضِعۡفَ الۡحَیٰوۃِ وَ ضِعۡفَ الۡمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ عَلَیۡنَا نَصِیۡرًا ﴿۷۵﴾ اے نبی! اگر بالفرض ایسا ہو جاتا تو ہم آپؐ کو دوگنا مزا چکھاتے دنیا کی زندگی کے عذاب کا اور دوگنا ہی موت کے عذاب کا اور آپؐ ہمارے مقابلے میں کسی کو اپنا مددگارنہ پاتے. 
اس کے ساتھ ہی اگلی آیت میں اشارہ ہو رہا ہے ہجرتِ مدینہ کی طرف. ہمارے پچھلے سبق میں‘ جو سورۃ العنکبوت کی بعض آیات پر مشتمل تھا‘ ہجرتِ حبشہ کی طرف اشارہ ان الفاظ میں تھا : 
یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ اَرۡضِیۡ وَاسِعَۃٌ فَاِیَّایَ فَاعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ اے میرے وہ بندو جو مجھ پر ایمان لائے ہو!میری زمین کشادہ ہے ‘پس بندگی صرف میری کرو ؎
پائے مرا لنگ نیست
ملکِ خدا تنگ نیست!

تمہیں ہر حال میں اللہ کی بندگی کرنی ہے اور اس کی خاطر اپنے وطن اور اپنی سرزمین کو چھوڑنا پڑے تو بے دریغ ہجرت کر جاؤ. یہاں سورۂ بنی اسرائیل میں بھی ہجرت کا اشارہ دے دیا : وَ اِنۡ کَادُوۡا لَیَسۡتَفِزُّوۡنَکَ مِنَ الۡاَرۡضِ لِیُخۡرِجُوۡکَ مِنۡہَا اور یہ لوگ تو اب تلے ہوئے ہیں اس پر کہ آپؐ کے قدم اکھاڑ دیں اس سرزمین سے. ان مشرکین کی پوری کوشش ہے کہ سرزمینِ مَکّہ سے آپؐ کو نکال باہر کریں. ان کے اس مذموم ارادے پر اللہ تعالیٰ نے نفیاً یہ نہیں فرمایا کہ ایسا نہیں ہو سکے گا ‘بلکہ صرف یہ فرمایا: وَ اِذًا لَّا یَلۡبَثُوۡنَ خِلٰفَکَ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿۷۶﴾ کہ پھر اس صورت میں یہ لوگ بھی یہاں زیادہ دیر رہ نہ سکیں گے‘ انہیں بھی یہاں پراب زیادہ دیر تک تمکن حاصل نہ رہے گا. گویا کہ اشارہ ہو گیا کہ ہجرت کا وقت آ رہا ہے. لیکن آپؐ کے یہاں سے تشریف لے جانے کے بعد یہ ابو جہل ‘یہ ابو لہب‘ یہ ولید بن مغیرہ‘ یہ عقبہ بن ابی معیط‘ یہ عتبہ بن ربیعہ‘ یہ سب لوگ زیادہ دیر اس مَکّے کی سرزمین میں آباد نہ رہیں گے‘ یہ بہت جلد کیفرِ کردار کو پہنچیں گے. فرمایا: سُنَّۃَ مَنۡ قَدۡ اَرۡسَلۡنَا قَبۡلَکَ مِنۡ رُّسُلِنَا وَ لَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحۡوِیۡلًا ﴿٪۷۷﴾ یہ ہمارا مستقل ضابطہ اور قاعدہ ہے ان تمام رسولوں کے بارے میں کہ جنہیں ہم نے تم سے پہلے بھیجااور ہمارے اس ضابطے میں تم کبھی کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے. پھر جس طرح سورۃ العنکبوت کے درس میں یہ بات ہمارے سامنے آئی تھی کہ اس طرح کی کٹھن اور مشکل صورتِ حال سے عہدہ برآ ہونے کے لئے مسلمان کا اصل سہارا نماز اور ذکرِ الٰہی ہے‘ اسی طرح یہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اگلی آیت میں نماز کی تاکید ہے: اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوۡکِ الشَّمۡسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیۡلِ وَ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ ؕ نماز قائم رکھو سورج کے ذرا ڈھلنے کے بعد رات کے تاریک ہو جانے تک! ظہر سے عشاء تک چونکہ اوپر تلے نمازیں آتی ہیں لہذا ان نمازوں کا ذکر اس انداز میں کیا گیا. ذہن میں رکھئے کہ اس سورۃ یعنی سورۂ بنی اسرائیل میں معراج کا ذکر ہے اور معراج ہی میں پانچ نمازوں کی فرضیت کا معاملہ ہوا. سورج کے ذرا ڈھلنے کے بعد سے لے کر ظہر ‘ عصر‘ مغرب اور عشاء کی نمازیں پے بہ پے آتی ہیں ‘ گویا کہ نماز قائم رہتی ہے. جو انسان نماز باجماعت کا پابند ہو وہ وقفے وقفے سے مسجد جاتا اور آتا ہے. چار نمازوں کا ذکر یوں ہوا اور پانچویں نماز یعنی نماز فجر کا تذکرہ ایک منفر د شان سے ہوا: وَ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ ؕ اور قرآن پڑھنا فجر کا.کیونکہ اس میں طویل قر اء ت کا خاص اہتمام ہوتا ہے‘ دیگر نمازوں کے مقابلے میں قرآن مجید کا زیادہ حصّہ پڑھا جاتا ہے. ساتھ ہی فرمایا: اِنَّ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ کَانَ مَشۡہُوۡدًا ﴿۷۸﴾ واقعہ یہ ہے کہ فجر کے وقت قرآن کی جو تلاوت ہوتی ہے اس پر موجودگی ہوتی ہے‘ یعنی قلب بھی حاضر ہوتا ہے اور جیسا کہ روایات سے معلوم ہوتا ہے فرشتے بھی حاضر ہوتے ہیں‘ رات اور دن دونوں اوقات کے فرشتوں کا اس وقت اجتماع ہوتا ہے.

فرض نمازوں کے ذکر کے بعد فرمایا: 
وَ مِنَ الَّیۡلِ فَتَہَجَّدۡ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ٭ۖ اور اے نبی ( )! ایک چیز آپؐ کے لئے اضافی طور پر لازم ہے. رات میں بھی آپؐ کھڑے رہا کریں اس قرآن کے ساتھ . قرآن کے ساتھ رات کو جاگنے اور قیام کرنے کا حکم بالکل ابتداء میں بھی آ چکا تھا : قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۲﴾ (سورۃ المزمل) یہاں گویا کہ دوبارہ اس کی تاکید ہو رہی ہے کہ آپؐ کے لئے بالخصوص یہ رات کی نماز بہت ضروری ہے. ساتھ ہی ایک بشارت بھی دے دی : عَسٰۤی اَنۡ یَّبۡعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحۡمُوۡدًا ﴿۷۹﴾ کہ ہو سکتا ہے کہ آپ ؐ کا ربّ آپ کو مقامِ محمود عطا فرمائے .

ابھی تک سورۂ بنی اسرائیل کی جو آیات ہم نے پڑھی ہیں ان میں صرف ایک رواں ترجمہ پر ہی اکتفا کیا گیا ہے تا کہ مضمون یہاں تک پہنچ جائے کہ جہاں ہجرت کا حکم وارد ہوا ہے. اگلی آیت میں یہ حکم بشکلِ دعا وارد ہوا ہے: 

وَ قُلۡ رَّبِّ اَدۡخِلۡنِیۡ مُدۡخَلَ صِدۡقٍ وَّ اَخۡرِجۡنِیۡ مُخۡرَجَ صِدۡقٍ وَّ اجۡعَلۡ لِّیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ سُلۡطٰنًا نَّصِیۡرًا ﴿۸۰

’’اور اے نبی! اپنے ربّ سے یہ دعا کیجئے کہ اے میرے ربّ! مجھے داخل کر سچائی کا داخل کرنا اور مجھے نکال سچائی کا نکالنا اور میرے لئے خاص اپنے خزانۂ فضل سے وہ غلبہ و قو ّت عطا فرما جو میر ی پشت پناہ بنے. ‘‘

یہ اللہ کی طرف سے اس انداز میں دعا کی تلقین دراصل اس کی پیشگی قبولیت کے اعلان کے طور پر ہوتی ہے. یہ درحقیقت ایک بشارت ہے محمد رسول اللہ کو کہ اب آپؐ کی دعوت ایک دوسرے مرحلے میں داخل ہونے والی ہے.ا ب وہ دَور آیا چاہتا ہے کہ جس میں وہ سرزمین کہ جو آپؐ کی دارالہجرت بننے والی ہے‘ وہاں آپ کو تمکن اور غلبہ و اقتدار حاصل ہو گا اور اس طرح غلبۂ دین حق کی راہ ہموار ہو گی. اور کچھ عرصے بعد بالآخر وہ صورت ہو جائے گی کہ حق کا بول بالا ہو گا اور باطل نیست و نابود ہو جائے گا . اس کی بشارت اگلی آیت میں موجود ہے : 
وَ قُلۡ جَآءَ الۡحَقُّ وَ زَہَقَ الۡبَاطِلُ ؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا ﴿۸۱﴾ ’’اعلان کر دیجئے کہ حق آ گیا اور باطل مٹ گیا‘ اور باطل تو ہے ہی مٹنے والا. ‘‘یہ تھوڑا سا وقتی غلبہ جو بظاہر باطل کو حاصل ہے اس سے انسان وقتی طور پر متاثر بھی ہو جاتا ہے اور یہ بھی درحقیقت اہل حق کی آزمائش کے لئے ہوتا ہے‘ ورنہ باطل کے لئے ثبات کہاں؟ 

یہ ہیں وہ مراحل کہ جن سے نبی اکرم گزر رہے تھے. مَکّی دور کا ایک اجمالی سا نقشہ رکھ دیا گیا کہ کس کس پہلو سے اور کس کس گوشے سے حضور اور صحابہ کرامؓ پر آزمائش آئی اور کس کس اعتبار سے صبر اور مصابرت کی ضرورت پیش آئی. بہرحال اس مَکّی دور کا جو نقطۂ اختتام ہے اسے یوں سمجھئے کہ ان ساری مصالحتی کوششوں کو ان کے 
پیش کرنے والوں کے مُنہ پر مار کر ان سے دو ٹوک الفاظ میں اعلانِ براء ت کیا گیا. اس راہ میں اگر تشدد ہوا تو اس کو پامردی سے سہا‘ فقر و فاقہ آیا تو اسے جھیلا‘ قید و بند آئی تو اسے برداشت کیا‘ پتھراؤ ہوا تو اس کو انگیز کیا‘ لالچ دیا گیا تو اس کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑے رہے‘ مصالحت کی پیشکش ہوئی تو اس کو ٹھکرایا اور آخری اعلان براء ت ان الفاظ میں ہوا. 

قُلۡ یٰۤاَیُّہَا الۡکٰفِرُوۡنَ ۙ﴿۱﴾لَاۤ اَعۡبُدُ مَا تَعۡبُدُوۡنَ ۙ﴿۲﴾وَ لَاۤ اَنۡتُمۡ عٰبِدُوۡنَ مَاۤ اَعۡبُدُ ۚ﴿۳﴾وَ لَاۤ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدۡتُّمۡ ۙ﴿۴﴾وَ لَاۤ اَنۡتُمۡ عٰبِدُوۡنَ مَاۤ اَعۡبُدُ ؕ﴿۵﴾لَکُمۡ دِیۡنُکُمۡ وَلِیَ دِیۡنِ ٪﴿۶﴾ 

یہ اعلانِ براء ت سورۂ زمر میں بہت ہی شد ت کو پہنچ گیا ہے. یوں کہئے کہ اس کا نقطۂ عروج یہی مقام ہے : قُلۡ اَفَغَیۡرَ اللّٰہِ تَاۡمُرُوۡٓنِّیۡۤ اَعۡبُدُ اَیُّہَا الۡجٰہِلُوۡنَ ﴿۶۴﴾ اے نادانو‘اے کم علمو اور ناسمجھ لوگو‘ اے جاہلو! کیا تم مجھے یہ حکم دے رہے ہو کہ میں اللہ کے سوا کسی اور کو پوجنے لگوں؟ مجھ سے یہ توقع رکھتے ہو تو درحقیقت تمہاری یہ کوشش اور تمہاری یہ توقع سراسر باطل ہے. یہ جماؤ‘ یہ صبر‘ یہ تحمل اور یہ مصابرت ہی دراصل اس راہ میں درکارہے.

وَآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ ربِّ العالمین!