سورۃ البقرۃ کے دو بڑے بڑے حصّے ہیں. پہلے حصّے میں رکوعوں کی تعداد دوسرے حصّے کے مقابلے میں قدرے کم ہے لیکن آیات کی تعداد زیادہ ہے. یہ حصّہ اٹھارہ رکوعوں اور ایک سو باون آیات پر مشتمل ہے جبکہ دوسرے حصّے میں رکوع بائیس ہیں اور آیات ایک سو چونتیس ہیں. گویا ایک خوبصورت توازن یہاں موجود ہے. تقریباً نصفین پر یہ سورۂ مبارکہ تقسیم کی جا سکتی ہے. نصف ِ اوّل میں خطاب کا رخ تقریباً کل کا کل بنی اسرائیل کی طرف ہے‘ جبکہ نصف ِ ثانی میں خطاب اُمت ِ مسلمہ سے بحیثیت اُمت ِ مسلمہ ہے. ویسے بنی اسرائیل سے براہِ راست خطاب کا آغاز پانچویں رکوع سے ہوتا ہے اور یہ سلسلہ پندرہویں رکوع تک چلا گیا ہے. گویا مسلسل دس رکوع بنی اسرائیل سے براہ ِراست گفتگو پر مشتمل ہیں. اس سورۂ مبارکہ کے ابتدائی چار رکوع تمہیدی نوعیت کے ہیں. ان میں سے پہلے دو رُکوعوں میں تین قسم کے افراد کا ذکر آیا ہے اور پھر قرآن کریم کی بنیادی دعوت کا خلاصہ دو رُکوعوں میں بیان کر دیا گیا ہے. وہاں بھی اگرچہ بین السطور یہود کا ذکر موجود ہے تاہم ان سے براہِ راست خطاب نہیں ہے.
پھر پانچویں رکوع سے یہود کے ساتھ براہِ راست خطاب کا آغاز ہوتا ہے اور یہ سلسلہ پندرہویں رکوع تک چلا گیا ہے. اس میں یہود یعنی بنی اسرائیل کو نبی اکرم ﷺ پر ایمان لانے کی مؤثر دعوت بھی ہے اور اُن پر ایک نہایت مفصل قرار دادِ جرم بھی عائد کی گئی ہے‘ اس لیے کہ ان کی حیثیت سابقہ اُمت ِ مسلمہ کی تھی. یہود اڑھائی ہزار برس تک اس منصب پر فائز رہے‘ نبوت و رسالت کا سلسلہ ان کے یہاں لگاتار جاری رہا‘ آسمانی کتابیں انہیں عطا کی گئیں. اس پورے عرصے کے دوران شریعت ِ الٰہی کے وہ حامل رہے. یوں کہئے کہ وہ اڑھائی ہزار برس تک اللہ کی زمین پر اللہ کی نمائندہ اُمت تھے. انہوں نے اللہ کی نعمتوں کی جو ناقدری کی‘ شریعت ِ الٰہی کو جس طرح بازیچۂ اطفال بنایا‘ اللہ کی کتاب میں جس جس طرح سے تحریف کی‘ وہ دنیاپرستی میں جس طرح غرق ہوئے اور دین کا جو حلیہ انہوں نے بگاڑا ‘اس سب کا ذکر کر کے گویا یہ اعلان فرما دیا گیا کہ انہیں ان کے منصب ِ جلیلہ سے معزول کیا جا رہا ہے اور ان کی جگہ ایک نئی اُمت محمد رسول اللہﷺ کی نبوت و رسالت کی بنیاد پر برپا کی جا رہی ہے. یہ ہے وہ مضمون کہ جس کے لیے سورۃ البقرۃ کے پانچویں رکوع میں اگرچہ یہود کے لیے دعوتی انداز بھی ملتا ہے لیکن پھر دسویں رکوع تک ملامت کا رنگ غالب ہے‘ ان کے جرائم کی طویل فہرست کا بیان ہے ‘بلکہ یوں کہئے کہ ایک مفصل قراردادِ جرم ہے جس کے نتیجے میں وہ اس مقام و مرتبے سے محروم اور اس عظیم منصب سے معزول ہوئے جس پر وہ اڑھائی ہزار برس تک فائز رہے اور اب اُمت ِ مسلمہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ و السلام اس مقام پر فائز کی گئی ہے.
چنانچہ پندرہویں رکوع سے لے کر اٹھارہویں رکوع تک‘ ان چار رکوعوں میں اسی اہم تبدیلی کی جانب اشارہ ہے. یہی وجہ ہے کہ ان رکوعوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت کو خاص طور پر نمایاں کیا گیا ہے کہ جو بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل دونوں کے جدّ امجد تھے اور اس اعتبار سے دونوں کے نزدیک یکساں طور پر محترم تھے. پھر ان رکوعوں میں خانہ کعبہ کی تعمیر کا باہتمام ذکر آیا ہے اور بوقت ِ تعمیر حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی دعا کا ذکر ہے کہ اے پروردگار! ہماری نسل میں سے ایک اُمت برپا کیجیو اور ان میں اپنا ایک نبی مبعوث فرمائیو! اس دعا کا ذکر پندرہویں رکوع میں ہے .اور پھر گویا کہ یہ اعلان کر دیا گیا کہ اب وہ اُمت برپا ہو گئی ہے اور اُس نبی کی بعثت ہو گئی ہے جس کے لیے حضرت ابراہیم اور ان کے فرزند اسماعیل (علیہما السلام) نے دعائیں مانگی تھیں. اب اس نبی کی نبوت و رسالت کی بنیاد پر ایک اُمت وجود میں آچکی ہے جسے ایک نہایت بلند منصب عطا کیا گیا ہے. چنانچہ سترہویں رکوع میں وہ آیۂ مبارکہ آئی جس میں نئی اُمت کی تشکیل کا ذکر ہے:
وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا ؕ
’’ اور اسی طرح بنایا ہے ہم نے تمہیں ایک درمیانی اُمت( ایک بہترین اُمت) تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ اور رسول تم پر گواہ بن جائیں‘‘.