سورۃ الحج کے آخر ی رکوع میں یہی مضمون ایک دوسری ترتیب سے آیا تھاکہ اے مسلمانو! اپنے نصیب پر فخر کرو کہ اس نے تمہیں ایک اہم منصب کے لیے چن لیا ہے‘ پسند کر لیا ہے. ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡ تم نبوت و رسالت کے سلسلے میں ایک مستقل کڑی کی حیثیت سے شامل کر لیے گئے ہو. یہ سب کچھ کس لیے ہے؟ لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۚۖ ’’ تاکہ رسول تم پر گواہ بن جائیں اور تم پوری نوعِ انسانی پر دینِ حق کی گواہی دینے والے بن جاؤ ‘‘. گویا دونوں مقامات پر ایک ہی مضمون مختلف ترتیب کے ساتھ بیان ہوا ہے. یہ شہادت علی الناس کا مضمون سورۃ الحج کے درس کے ضمن میں وضاحت کے ساتھ آ چکا ہے. پھر انہی رکوعوں میں دو مرتبہ وہ الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں جن میں نبی اکرم کے اساسی طریق کا ر کا بیان ہے. پہلے تو پندرہویں رکوع میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی دعا میں وہ الفاظ وارد ہوئے اور پھر اٹھارہویں رکوع میں جہاں اس دعا کی قبولیت کا اعلان ہے وہاں یہ الفاظ اس شان کے ساتھ آئے :

کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِیۡکُمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡکُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِنَا وَ یُزَکِّیۡکُمۡ وَ یُعَلِّمُکُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ...

گویا کہ اُمت ِ مسلمہ کے مقصدِ وجود اور اس کی غرضِ تاسیس کا نمایاں انداز میں ذکر سورۃ البقرۃ کی اس آیت میں آیا ہے. حقیقت یہ ہے کہ یہ بڑی ہی اہم اور قابلِ توجہ بات ہے‘ اس لیے کہ چھوٹی سی انجمن بھی اگر بنائی جاتی ہے تو آغا ز ہی میں اس کے اغراض و مقاصد معین کیے جاتے ہیں کہ یہ ادارہ کیوں تشکیل دیا جا رہا ہے اور کون سا اہم کام ہے جو اس کے پیش نظر ہے‘ اس انجمن کی غرض تاسیس کیا ہے؟ وغیرہ .سوچئے کہ اتنی بڑی اُمت اگر تشکیل دی گئی ہے تو لازماً اس کے بھی کچھ اغراض و مقاصد ہوں گے. یہی درحقیقت اس آیت کا موضوع ہے.

آگے بڑھنے سے قبل لفظ 
’’اُمَّۃً‘‘ کے مفہوم پر بھی غور کیجئے : اَمَّ . یَؤُمُّ کے معنی ہیں قصد کرنا‘ ارادہ کرنا. اُمت سے مراد ہے ہم مقصد لوگوں کا ایک گروہ یا ایک جماعت. ایک مشترک نصب العین رکھنے والے اور ایک ہی ہدف اور منزلِ مقصود رکھنے والے لوگ اُمت قرار پاتے ہیں. اس پس منظر میں سمجھئے کہ مسلمانوں کو اُمت اس لیے بنایا گیا ہے کہ وہ فریضۂ نبوت اور کارِ رسالت جو پہلے انبیاء و رُسل ادا کیا کرتے تھے اب ختم نبوت کے بعد قیامت تک یہ ذمہ داری اس اُمت کو ادا کرنی ہے. لوگوں تک اللہ کے دین کو پہنچانے کا فریضہ اب اس اُمت کے حوالے کیا گیا ہے. اسی فریضے کا عنوان ہے ’’ شہادت علی الناس‘‘ اور ’’ اتمامِ حجت‘‘ کہ اپنے قول و فعل سے دین حق کی گواہی دینا اور اللہ کی طرف سے خلق خدا پر حجت قائم کر دینا تا کہ محاسبۂ اُخروی کے وقت وہ یہ عذر پیش نہ کر سکیں کہ اے اللہ تیری ہدایت ہم تک پہنچی نہیں‘ ہمیں معلوم نہ تھا کہ تُو کیا چاہتا ہے‘ ہمیں بتایا ہی نہیں گیا کہ تیری مرضی کس چیز میں ہے! سورۃ النساء میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں:

لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌۢ بَعۡدَ الرُّسُلِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا ﴿۱۶۵

’’تاکہ رسولوں کے آنے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے (محاسبہ کے) مقابلے میں کوئی دلیل اور حجت باقی نہ رہے ‘اور اللہ تو ہے ہی سب پر غالب‘ کمالِ حکمت والا‘‘.

تو سورۃ البقرۃ کے پندرہویں رکوع سے لے کر اٹھارہویں رکوع تک یوں سمجھئے کہ وہی مضامین جن کا مطالعہ ہم سورۃ الحج‘ سورۃ الصف اور سورۃ الجمعۃ میں بڑی تفصیل کے ساتھ کر چکے ہیں‘ یہاں ایک ذرا مختلف ترتیب کے ساتھ بیان ہوئے ہیں. خاص طور پر اُمت کے فرضِ منصبی کے حوالے سے ان سب مضامین کو بیان کرنے کے بعد اب خطاب شروع ہوتا ہے مسلمانوں سے بحیثیت ِ اُمت مسلمہ‘ کہ اپنے فرائض کی عظمت کو پہچانو‘ ایک بڑا کٹھن اور نہایت بھاری بوجھ ہے جو تمہارے کاندھے پر آ گیا ہے. اس پہلو سے یہ مقام سورۃ المُزّمّل کی ابتدائی آیات کے بہت مماثل ہے کہ جہاں آنحضور کو آغازِ وحی کے بالکل ابتدائی دَور میں شخصی طور پر خطاب کر کے کچھ خصوصی ہدایات دی گئیں اور پیشگی آگاہ کر دیا گیا: 
اِنَّا سَنُلۡقِیۡ عَلَیۡکَ قَوۡلًا ثَقِیۡلًا ﴿۵﴾ ’’(اے نبی!) ہم آپ پر ایک بھاری بات ڈالنے والے ہیں‘‘. کارِ رسالت کی بھاری ذمہ داری آپؐ کے کاندھوں پر ڈالی جا رہی ہے. چنانچہ اسی موقع پر یہ تلقین بھی کی گئی کہ وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ وَ اہۡجُرۡہُمۡ ہَجۡرًا جَمِیۡلًا ﴿۱۰﴾ کہ ان مخالفین کی باتوں پر آپ صبر کیجئے اور استقامت کے ساتھ اپنے فرائض کی ادائیگی پر کمر بستہ رہیے اور ان مخالفین کو خوبصورتی کے ساتھ نظر انداز کر دیجئے!