اب کارِ رسالت کا یہ بوجھ چونکہ اُمت کے کاندھوں پر آ رہا ہے‘ یہ اجتماعی ذمہ داری ہے جو اُمت کو تفویض کی جا رہی ہے لہذا اُمت سے خطاب اِن الفاظ میں ہوا:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ 
’’ اے اہل ایمان! مدد حاصل کرو صبر سے اور نماز سے‘‘.

حکم ہو رہا ہے کہ دعوت و تبلیغ دین کی اہم ذمہ داری اور فریضۂ شہادت علی الناس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے قوّت پکڑو صبر و ثبات سے‘ سہار اور تحمل سے اور نماز سے کہ جو اللہ کے ذکر کی ایک اعلیٰ شکل اور اس کے ساتھ ایک مضبوط تعلق قائم رکھنے کا مؤثرذریعہ ہے.

اگرچہ اس سے پہلے ہمارے اس منتخب نصاب میں 
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا کے الفاظ متعدد بار آ چکے ہیں‘ یہاں تک کہ صرف سورۃ الحجرات میں پانچ مرتبہ یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں‘ لیکن یہاں ان الفاظ کے حوالے سے ایک اہم نکتے کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے. قرآنِ حکیم کا یہ وہ مقام ہے جہاں مسلمانوں سے بحیثیت ِ اُمت ِ مسلمہ گفتگو کا آغاز ہو رہا ہے. اُمت کی تشکیل کے اعلان کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ مسلمانوں کو باضابطہ خطاب کیا گیا اور اس کے لیے یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا کے الفاظ لائے گئے. یہ بات بہت سے حضرات کے لیے شاید قابلِ تعجب ہو کہ پورے مَکّی قرآن میں کہیںیٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا کے الفاظ نہیں آئے. قرآن مجید کا قریباً دو تہائی حصّہ مَکّی سورتوں پر مشتمل ہے اور پورے مَکّی قرآن میں یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا کے الفاظ سے خطاب نہیں ملتا. اس قاعدے میں استثناء صرف ایک ہے اور وہ سورۃ الحج کا وہی مقام ہے جو ہمارے منتخب نصاب میں شامل ہے‘ لیکن یہ بات ذہن میں رکھئے کہ اس سورۃ کے مَکّی یا مدنی ہونے کے بارے میں اختلاف چلا آ رہا ہے. بہت سے حضرات اسے مدنی مانتے ہیں اور اس کی بعض آیات کے بارے میں تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ مدنی دَور میں نازل ہوئیں. وہ یقینا یا تو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں یا اثنائے سفر ہجرت میں ان کا نزول ہوا. اس پہلو سے یہ استثناء بھی باقی نہیں رہتا اور یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ پورے مَکّی قرآن میں یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا کے الفاظ نہیں آئے. 

آیت زیر نظر سے قبل سورۃ البقرۃ میں اگرچہ صرف ایک مرتبہ یعنی آیت ۱۰۴ میں 
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا کے الفاظ وارد ہوئے ہیں لیکن وہ بھی ایک ضمنی بات کے طور پر‘ اصل میں مسلمانوں سے بحیثیت ِ اُمت مسلمہ خطاب شروع ہو رہا ہے سورۃ البقرۃ کی اس آیت ۱۵۳ سے. اس کے بعد مدنی سورتوں میں یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا کا اندازِ خطاب نہایت کثرت سے ملتا ہے. مَکّی قرآن میں خطاب جہاں بھی ہے وہ براہ ِراست محمد رسول اللہ سے ہے‘ بصیغۂ واحد. ہاں تبعاً آپؐ کی وساطت سے مسلمان بھی اس خطاب کے مخاطب ہوتے ہیں‘ لیکن قرآن حکیم میں مسلمانوں کو بحیثیت اُمت خطاب کا آغاز مدینے میں آ کر ہوا کہ جہاں مسلمان ایک اُمت کی حیثیت اختیار کر چکے تھے اور تشکیل اُمت کا باضابطہ اعلان کر د یا گیا تھا. یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگرچہ مَکّے میں بھی ان کی حیثیت ایک جماعت کی اور ایک Revolutionary party کی تھی لیکن ان کی بحیثیت اُمت مسلمہ باقاعدہ تاج پوشی (Coronation) مدینے میں ہوئی اور اس کی علامت کے طور پر تحویل قبلہ کا معاملہ ہوا. دوسرے پارے کے بالکل آغاز میں یہ حکم وارد ہوا کہ تمہارا قبلہ بدل دیا گیا ہے‘ آئندہ نماز میں بیت المقدس کی طرف رُخ نہیں ہو گا بلکہ فَوَلِّ وَجۡہَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ؕ کہ اب پھیر لو اپنے چہرے کو مسجد حرام کی جانب. ایک نئے مرکز کے گرد ایک نئی اُمت کی تشکیل کا اعلان کر دیا گیا اور اسی اعتبار سے اب قرآن مجید میں مسلمانوں سے خطاب کے لیے مستقل اصطلاح ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا.