’’ (اے نبی!) تلاوت کرتے رہئے جو وحی کیا گیا آپ کی طرف کتاب میں سے اور نماز قائم کیجئے. یقینا نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے‘‘.
یہی بات ہم سورۂ بنی اسرائیل میں دیکھ چکے ہیں. وہاں پر بھی فرمایا گیا کہ اے نبی! اگرچہ جو مصالحانہ پھندے آپ کے لیے لگائے گئے آپ اللہ کے فضل و کرم سے ان سے بچ نکلے‘ لیکن صبر و ثبات کے لیے بنیاد وہی اقامت ِ صلوٰۃ ہے:
اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوۡکِ الشَّمۡسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیۡلِ وَ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ ؕ (آیت۷۸)
’’ قائم رکھئے نماز کو سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک اور قرآن پڑھنا فجر کا.‘‘
اور سورۃ العنکبوت میں تلاوت ِ قرآن حکیم اور اقامت ِ صلوٰۃ کے حکم کے ساتھ ہی فرمایا : وَ لَذِکۡرُ اللّٰہِ اَکۡبَرُ ؕ ’’اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی شے ہے‘‘. اور تلاوت ِ قرآن حکیم اور اقامت ِ صلوٰۃ اللہ کے ذکر اور تعلق مع اللہ کی بہترین صورتیں ہیں.
ظاہر ہے کہ کسی بھی انقلابی کارکن کے لیے اپنی انقلابی جدوجہد میں ثابت قدم رہنے کا دارومدار اپنے مقصد اور نصب العین کے ساتھ پوری یکسوئی کے ساتھ وابستگی اور لگاؤ پر ہے. اپنے نصب العین سے اس کی وابستگی جس قدر گہری ہو گی‘ ذہن اور قلب کے اندر اس کی جڑیں جتنی گہری اتری ہوئی ہوں گی‘ اسی قدر وہ اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو برداشت کرے گا‘ مصائب کو جھیلے گا‘ امتحانات میں کامیابی سے درّاتا ہوا گزر جائے گا اور آزمائشوں کی بھٹیوں میں سے سرخرو ہو کر نکلے گا. یہ جدّوجہد چونکہ اللہ کے لیے اور اللہ کے دین کے لیے ہے اور اس میں اصل مقصود و مطلوب اللہ کی رضا جوئی ہے لہذا یہاں تمہارے صبر و ثبات کی بنیاد تعلق مع اللہ ہے. اللہ کی یاد تمہارے دل میں جس قدر ہو گی اور اللہ تمہارے ذہن سے جتنا قریب تر رہے گا اتنا ہی تم اس راہ میں ثابت قدم رہ سکو گے. اور ذکر اللہ کے لیے جو سب سے جامع پروگرام تمہیں دیا گیا وہ ہے نماز. چنانچہ یہاں فرمایا گیا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۵۳﴾
’’ اے اہلِ ایمان! مدد چاہو صبر سے اور نماز سے. یقینا اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘.