یہاں ضمنی طور پر اس حقیقت کی طرف توجہ دلا دینا یقینا مفید ہو گا کہ قرآن حکیم میں اگرچہ لفظ شہید کا استعمال متعدد مقامات پر ہوا ہے اور ’’شہادت‘‘ قرآن حکیم کی ایک اہم اصطلاح ہے لیکن مقتول فی سبیل اللہ کے لیے قرآن لفظ ’’شہید ‘‘استعمال نہیں کرتا. اس میں استثناء صرف ایک ہے اور وہ ہے سورۂ آل عمران کی آیت ۱۴۰. وہاں وَ یَتَّخِذَ مِنۡکُمۡ شُہَدَآءَ ؕ میں لفظ ’’شُہَدَآءَ‘‘ کو اگرمقتولین فی سبیل اللہ کے معنی میں لیا جائے تو غلط نہ ہو گا. دیگر تمام مقامات پر مقتول فی سبیل اللہ کے لیے اس لفظ کا استعمال ہمیں قرآن میں نہیں ملتا. یہاں تک کہ خود نبی اکرم کے بارے میں بھی سورۂ آل عمران میں جہاں یہ مضمون آیا ہے وہاں بھی شہید ہو جانے یا شہادت پا جانے کے لیے ’’قُتِلَ ‘‘ کا لفظ ہی صیغۂ مجہول میں آیا ہے :

وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ ؕ (آیت ۱۴۴)
’’محمد( ) اللہ کے ایک رسول ہیں‘ ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں‘ تو اگر ان کا انتقال ہو جائے یا وہ اللہ کی راہ میں قتل ہو جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل لوٹ جاؤ گے؟‘‘

ایک حدیث میں جس میں آنحضور نے اپنے لیے شہادت کی تمنا کا اظہار فرمایا ہے‘ وہاں بھی اس ضمن میں 
’’قُتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘‘ کے الفاظ ہی وارد ہوئے ہیں :

وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوَدِدْتُ اَنِّیْ اُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ‘ فَاُقْتَلُ‘ ثُمَّ اُحْیَا‘ ثُمَّ اُقْتَلُ‘ ثُمَّ اُحْیَا‘ ثُمَّ اُقْتَلُ (رواہ البخاریؒ عن ابی ہریرہؓ )
’’اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! میری دلی تمنا ہے کہ میں اللہ کی راہ میں جنگ کروں اور قتل ہو جاؤں‘ پھر مجھے زندہ کیا جائے‘ پھر مقتول ہو جاؤں (اللہ کی راہ میں) اور پھر مجھے زندہ کیا جائے اور پھر قتل کر دیا جاؤں.‘‘

ذہن میں رکھئے کہ قرآن مجید میں لفظ شہادت کا استعمال اصلاً دین حق کی گواہی دینے کے لیے ہے. اللہ کے خالق و مالک ہونے کی گواہی‘ اللہ کی توحید کی گواہی‘ محمد کی صداقت اور رسالت کی گواہی. (؏ دے تو بھی محمدؐ کی صداقت کی گواہی) آخرت کے حق ہونے کی گواہی‘ خیر کی گواہی‘ قرآن کی حقانیت کی گواہی اور یہ گواہی صرف اپنے قول سے ہی نہیں عمل سے بھی دینی ہے. یہ ہے ہر مسلمان کا فرض اور اس کے لیے قرآن کی اصطلاح ہے ’’شہادت علی الناس‘‘ جو تمام مسلمانوں کا فرضِ منصبی ہے بحیثیت اُمت مسلمہ. اس لفظ شہادت کو قرآن مجید نے اس معنی کے لیے خاص کیا ہے. تاہم احادیث میں مقتول فی سبیل اللہ کے لیے لفظ شہید کا استعمال بھی مل جاتا ہے. اس لیے ان دونوں الفاظ میں ا س اعتبار سے ایک گہرا معنوی ربط موجود ہے کہ جس شخص نے حق کے غلبے کی اس جدوجہد میں اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کر دی اس نے گویا کہ آخری درجے میں شہادت دے دی‘ دین کی خاطر اپنی زندگی دے کر گویا اپنی جان سے دین حق کی گواہی دے دی. اب وہ شہید (گواہ) کہلانے کا بتمام و کمال مستحق ہو گیا.