اب آئیے اصل سلسلۂ کلام کی طرف. اگلی آیت میں وہ پیشگی تنبیہہ آ رہی ہے جس کا حوالہ گفتگو کے آغاز میں دیا گیا تھا :

وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ 
’’اور (اے مسلمانو!) ہم لازماً آزمائیں گے تمہیں کسی قدر خوف سے اور بھوک سے اور مال و جان اور ثمرات کے نقصان سے.‘‘

اس سے قبل سورۃ العنکبوت کے درس کے ضمن میں عرض کیا جا چکا ہے کہ عربی زبان میں یہ تاکید کا انتہائی اسلوب ہے کہ فعل مضارع سے قبل لام مفتوح اور آخر میں نون مشدّد کا اضافہ کر دیا جائے. یہی انداز ہمیں اس آیت میں ملتا ہے. چنانچہ 
’’وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ‘‘ کا ترجمہ ہو گا :’’ ہم لازماً آزمائیں گے تمہیں‘‘.ہم آزمائشوں کی کٹھالیوں میں تمہیں ڈالیں گے‘ تمہارے صبر و مصابرت کا بھرپور امتحان ہو گا‘ نہایت کٹھن حالات سے تمہیں گزرنا ہو گا جن کے ذریعے جانچ لیا جائے گا کہ تم کتنے پانی میں ہو‘ یہ بات خوب نکھر کر سامنے آ جائے گی کہ ذاتِ باری تعالیٰ پر فی الواقع تمہیں کتنا یقین حاصل ہے‘حیات بعد الممات پر کتنا کچھ ایمان ہے‘ محمدٌ رسو ل اللہ کی رسالت پر تم کیا کچھ قربان کر سکتے ہو.اللہ کی راہ میں اگر تم آئے ہو تو تحفظات (Reservations) کے ساتھ تو نہیں آئے! آزمائشوں اور امتحانات سے جب تمہیں سابقہ پیش آئے گا تو ان میں سے ایک ایک چیز واضح ہو جائے گی. ’’بَلَا یَبْلُوْ‘‘ کے معنی ہیں جانچنا اور پرکھنا. یہ لفظ لغت میں بنیادی طور پر گوشت کو آگ پر سینکنے کے مفہوم میں آتا ہے. اس سینکائی کے عمل میں گوشت کو انگاروں پر الٹا پلٹا جاتا ہے‘ ابھی اس رخ پر ڈالا ہے‘ پھر ذرا پلٹ کر دوسرے رخ پر ڈال دیا. یہ ہے اس لفظ کی اصل. تمہیں بھی مختلف حالات سے دوچار کر کے سینکا جائے گا‘ تمہیں آزمایا جائے گا‘ جانچا اور پرکھا جائے گا. البتہ اس آیت مبارکہ میں ’’ بِشَیۡءٍ‘‘ کا ایک لفظ ایسا آیا ہے جس میں تسلی کا پہلو موجود ہے کہ بظاہر تو امتحانات بڑے کٹھن ہوتے ہیں‘ ایک بار تو انسان دہل کر رہ جاتا ہے‘ لیکن اگر وہ ثابت قدم رہے تو معلوم ہوتا ہے کہ کچھ بھی نہیں تھا. بظاہر ایک خوفناک صورت حال سامنے آتی ہے لیکن اگر انسان ڈٹا رہے تو پتہ چلتا ہے کہ بس ایک ریلا تھا حالات کا‘ آیا اور گزر گیا. دیکھنے والے اس آزمائش کی ظاہری شدت سے متاثر اور مرعوب ہوں گے لیکن صبر و ثبات کے ساتھ اس آزمائش سے گزرنے والوں کو یوں محسوس ہو گا کہ جیسے بڑی ہی ہلکی سی کوئی بات تھی کہ جو ہوگئی. بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ 

ذہن میں رکھئے کہ یہ آیات مدنی دَور کے بالکل آغاز میں نازل ہو رہی ہیں. حضور’ کی حیاتِ طیبہ کے ان آخری دس سالوں پر جو آپؐ نے مدینہ میں گزارے‘ اگر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو اس آیت کی عظمت کا مزید انکشاف ہوتا ہے کہ اس پورے مدنی دَور میں کس طرح وہ حالات وقفے وقفے سے پیدا ہوتے رہے جن کا پورا نقشہ ایک پیشگی تنبیہہ کے طور پر ان آیات میں کھینچ دیا گیا ہے. خوف و خدشات ہوں گے‘ جان و مال کے اندیشے ہوں گے‘ بھوک اور پیاس سے سابقہ پیش آئے گا‘ فاقہ کشی کے باعث جان نکلتی ہوئی محسوس ہو گی‘ جان و مال اور ثمرات کا نقصان اٹھانا پڑے گا. اس راہ میں یہ سارے مراحل آئیں گے.