’’ثمرات‘‘ کا لفظ یہاں بہت ہی قابل توجہ ہے .ثمرات کا عام مفہوم لیا گیا ہے پھل. اس اعتبار سے ترجمہ یہ بنتا ہے کہ پھل ضائع ہو جائیں گے. مدینہ منورہ کے مخصوص معاشرتی پس منظر میں یہ مفہوم بجا طور پر سمجھ میں آتا ہے. اہل مدینہ بنیادی طور پر کاشتکار تھے‘ زراعت ان کا پیشہ تھا. زراعت کے میدان میں جو محنت بھی کی جاتی ہے‘ ہل چلایا جاتا ہے‘ کھیت کی آبیاری کی جاتی ہے‘ اس ساری محنت کا حاصل چونکہ وہ فصل ہے جو آخر میں کاٹی یا اتاری جاتی ہے اور تمام امیدیں چونکہ اس فصل کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں لہذا اگر فصل اجڑ جائے تو نقصان بہت شدید ہوتا ہے اور یہ آزمائش کی بڑی کٹھن صورتوں میں سے ایک ہے. غزوۂ احزاب اور غزوۂ تبوک کے مواقع پر اس نوع کے امتحان سے مسلمانوں کو سابقہ پیش آیا تھا. فصلیں تیار ہیں‘ لوگ اس امید میں ہیں کہ فصلیں اتاریں گے‘ اپنی محنتوں کی کمائی کو گھروں میں لائیں گے‘ عین اُس وقت حملہ ہوتا ہے‘ باغات اجاڑ دیئے جاتے ہیں یا حکم ہوتا ہے کہ تیار فصلوں کو چھوڑ کر جہاد کے لیے نکلو‘ اور وقت پر فصلیں برداشت نہ کر سکنے کے باعث فصل ضائع ہو جاتی ہے. یہ تمام آزمائش کی صورتیں ہیں جن سے مسلمان مدینہ میں گزرتے رہے ہیں. البتہ ’’ثمرات‘‘ کا لفظ اس سے زیادہ وسیع ہے. انسانی محنت خواہ کسی بھی میدان میں ہو‘ اس کا حاصل دراصل اس کا ثمرہ ہے. کسی نے بڑی محنت کر کے کاروبار جمایا ہے‘ اب دین کی طرف سے پکار آتی ہے کہ آؤ !اور صاف نظر آ رہا ہے کہ دین کی طرف آنے میں کاروبار کا نقصان ہے‘ تو یہ آزمائش بڑی کڑی ہے . ؎ 

تپتی راہیں مجھ کو پکاریں
دامن پکڑے چھاؤں گھنیری 

وہ محنت سے جمایا ہوا کاروبار پاؤں میں بیڑی بن کر پڑ جاتا ہے. کسی نوجوان نے بڑا وقت لگا کر اور بڑی محنت سے کسی کیریئر میں اپنا کوئی مقام حاصل کیا ہے اور اب دین کے تقاضے سامنے آتے ہیں‘ دین کا تقاضا اس پر واضح ہوتا ہے کہ آؤ اور کھپاؤ اپنے آپ کو غلبہ و اقامت دین کی راہ میں!وہ کیریئر اور وہ Profession اب انسان کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے. اسے صاف نظر آ رہا ہے کہ اس طرح اس کی اب تک کی ساری محنت ضائع ہوتی ہے. سورۃ الکہف کے ایک مقام سے اگر روشنی حاصل کی جائے تو اولاد بھی انسان کا ثمرہ ہے‘ یہ بھی درحقیقت ایک اعتبار سے اس کی کمائی ہے. انسان کو اگر ایک درخت سے تعبیر کیا جائے تو اس کا پھل اس کی اولاد ہے. نگاہوں کے سامنے اگر اس کی اولاد اللہ کی راہ میں قربان ہو رہی ہو تو گویا یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے اس کا ثمر اس کی نگاہوں کے سامنے اجڑ رہا ہے اور یہ آزمائش کی نہایت کٹھن صورت ہے. یہاں متنبہ کر دیا گیا ہے کہ اے مسلمانو! یہ سارے امتحان اب آئیں گے : 

وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ
’’اور ہم لازماً آزمائیں گے تمہیں کسی قدر خوف سے‘ بھوک سے‘ مال و جان کے نقصان سے‘ اور ثمرات کے ضیاع سے‘‘.

آیت کے آخری ٹکڑے پر اپنی توجہ مرکوز کیجئے! فرمایا:
وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۵۵﴾ۙ

’’اور( اے نبی!) بشارت دیجئے صبر کرنے والوں کو‘‘.( ان کو کہ جو ان تمام آزمائشوں اور مصائب و تکالیف کو پامردی کے ساتھ جھیل جائیں‘ برداشت کر جائیں).