قرآن حکیم کے مطالعے سے صبر کا جو تصور سامنے آتا ہے اس کی رو سے صبر ہر گز کوئی منفی شے نہیں ہے‘ بلکہ یہ ایک مثبت جذبہ ہے. کسی مقصد کی تکمیل کی خاطر یا کسی نصب العین اور منزلِ مقصود تک رسائی حاصل کرنے کی جدوجہد میں جو تکالیف آئیں اور اس راہ کی رکاوٹوں سے نبرد آزما ہونے میں جو مصائب آئیں انہیں ثابت قدمی کے ساتھ جھیلنا اور برداشت کرنا صبر ہے ‘ جو یقینا ایک مثبت جذبہ ہے. صبر و استقلال کا مظاہرہ کرنے والے باہمت لوگوں کے بارے میں ہی یہ الفاظ یہاں آئے ہیں : وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۵۵﴾ۙ ’’ اور (اے نبیؐ !) بشارت دیجئے صبر کرنے والوں کو!‘‘ صبر کے حوالے سے یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ اللہ کی راہ میں قتال کرنے والا کوئی شخص اگر میدانِ جنگ میں پامردی اور استقامت کا مظاہرہ کرنے کی بجائے جان بچانے کے لیے وہاں سے راہِ فرار اختیار کرے گا تو اس کا یہ عمل دراصل اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے. اس کا سب کچھ کیا دھرا ضائع ہو جائے گا‘ بلکہ سورۃ الانفال میں تو ایسے شخص کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے. تو یہاں پیشگی متنبہ کر دیا گیا کہ اس راہ میں آزمائشیں اور مشکلات تو آئیں گی اور ان میں سرخروو ہی ہو سکیں گے جو صبر و ثبات کا مظاہرہ کریں گے. اگلی آیت میں ان صبر کرنے والوں کے ایک نہایت اہم وصف کا ذکر ہے:

الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ﴿۱۵۶﴾ؕ 
’’(وہ صبر کرنے والے کون ہیں؟) وہ لوگ کہ جب بھی کوئی مصیبت اُن پر پڑتی ہے یا کوئی تکلیف انہیں پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف ہم لوٹنے والے ہیں‘‘.

اسی سورۂ مبارکہ میں ذرا آگے چل کر وہ آیۂ بِرّہے جو ہمارے اس منتخب نصاب کے حصّۂ اوّل میں شامل ہے. وہاں ہم دیکھ چکے ہیں کہ نیکی کی بحث کا نقطۂ عروج یہی مضمون ہے : 
وَ الصّٰبِرِیۡنَ فِی الۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیۡنَ الۡبَاۡسِ ؕ ’’ اور خصوصاً صبر کرنے والے اور جھیلنے والے جسمانی اذیت کو‘ فقر اور فاقے کو اور وہ کہ جو عین حالت ِ جنگ میں ثابت قدم رہنے والے ہیں‘‘. یہاں ان صبر کرنے والوں کی یہ شان بیان ہوئی ہے کہ جب بھی انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے ‘ کوئی بپتا ان پر پڑتی ہے تو ان کی زبان پر یہ کلمہ جاری ہوتا ہے کہ : اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ