یہ بات ذہن میں رکھئے کہ سورۃ البقرۃ مدنی سورۃ ہے اور اس کے زمانۂ نزول کا اگر تعین کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ ہجرت کے بعد سے لے کر غزوۂ بدر سے متصلاً قبل تک کے عرصے میں نازل ہوئی. چنانچہ یہ آیات جو ہمارے زیر درس ہیں گویا کہ قتال فی سبیل اللہ کے لیے تمہید کا درجہ رکھتی ہیں. آپ دیکھیں گے کہ اسی سورۂ مبارکہ میں آگے چل کر چوبیسویں رکوع میں قتال فی سبیل اللہ کے ضمن میں متعین حکم بھی موجود ہے : وَ قَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ وَ لَا تَعۡتَدُوۡا ؕ حکم ہو گیا کہ اے اہلِ ایمان اب اللہ کی راہ میں قتال کرو‘ اور جان لو کہ تمہاری دعوت اب اگلے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے.

جیسا کہ اس سے قبل عرض کیا جا چکا ہے‘ سورۃ الحج میں ‘ جو نزولی اعتبار سے سورۃ البقرۃ سے متصلاً قبل شمار کی جاتی ہے‘ اذنِ قتال والی آیت آئی ہے. ذہن میں رکھئے کہ قتال کی اجازت اور قتال کا حکم دو مختلف چیزیں ہیں. اجازتِ قتال یہ ہے کہ اب تمہیں بھی ہاتھ اٹھانے کی اجازت ہو گئی 

اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصۡرِہِمۡ لَقَدِیۡرُۨ ﴿ۙ۳۹﴾ 

یعنی آج اجازت مرحمت کی جا رہی ہے ان لوگوں کوجن پر جنگ ٹھونسی گئی تھی‘ جن پر مظالم توڑے گئے تھے‘ جنہیں اُن کے گھر بار سے نکالا گیا تھا‘ جن پر زندگی کا قافیہ تنگ کیا گیا تھا‘ لیکن جنہیں اب تک اپنی مدافعت میں بھی ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہ تھی‘ گویا ان کے ہاتھ باندھ دیئے گئے تھے‘ جیسا کہ سورۃ النسا ء میں ایک جگہ فرمایا گیا کہ ان سے کہہ دیا گیا تھا : کُفُّوۡۤا اَیۡدِیَکُمۡ ’’ اپنے ہاتھ بندھے رکھو‘‘. یعنی جھیلو اور برداشت کرو‘ جس کے لیے ان دروس میں بار بار Passive Resistance کا لفظ استعمال ہوا ہے. آج ان کے ہاتھ کھول دیئے گئے اور انہیں اجازت دے دی گئی کہ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دے سکتے ہیں. اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت کی نوید بھی دے دی گئی کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد پر قادر ہے. 

اس کے بعد سورۃ البقرۃ میں حکمِ قتال وارد ہوا:

وَ قَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ (آیت ۱۹۰)
’’ جو لوگ تم سے جنگ کر رہے ہیں اب تم ان سے جنگ کرو اللہ کی راہ میں‘‘.

سورۃ البقرۃ کے چوبیسویں رکوع میں جہاں قتال کا یہ حکم آیا ہے وہاں ساتھ ہی اس کا ہدف بھی معین کر دیا گیا:

وَ قٰتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ لِلّٰہِ ؕ (آیت ۱۹۳

’’ اور ان سے جنگ کرتے رہو (یہ تلواریں جو اَب میان سے نکلی ہیں یہ اب میان میں واپس نہیں جائیں گی) جب تک کہ فتنہ بالکل فرو نہ ہو جائے (اللہ کے باغی جب تک ہتھیار نہ ڈال دیں) اور پورا نظامِ اطاعت اللہ ہی کے لیے نہ ہو جائے‘‘.

جب تک اللہ کی زمین پر اسی کا حکم نافذ نہیں ہوتا اور اس کا کلمہ سربلند نہیں ہوتا اُس وقت تک جنگ جاری رہے گی. گویا قتال فی سبیل اللہ کا ہدف یہ ہے کہ دین کُل کا کُل اللہ کے لیے ہو جائے‘ اسی کا جھنڈا سربلند ہو‘ اسی کی مرضی نافذ ہو‘ اسی کے حکم کی تنفیذ ہو‘ مختصراً یہ کہ اللہ کی زمین پر اللہ ہی کا دین قائم ہو جائے. بہرکیف یہ ہے قتال کا باضابطہ حکم جو سورۃ البقرۃ کے چوبیسویں رکوع میں آیا ہے.

اب ذراایک نظر سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۱۴ پر بھی ڈال لیجیے جس کا حوالہ اس سے پہلے سورۃ العنکبوت کے پہلے رکوع کے درس میں دیا جا چکا ہے. یہ بات سمجھ لیجیے کہ کسی بھی نظریاتی گروہ یاجماعت میں ہر مزاج اور ہر افتادِ طبع کے لوگ ہوتے ہیں.مسلمانوں کی جماعت میں جہاں کثیر تعداد میں ایسے باہمت لوگ تھے کہ جنہوں نے حکمِ قتال کی آیت کے نزول پر خوشیاں منائیں کہ اب ہمارے ہاتھ کھول دیئے گئے‘ اب ہمارے لیے دین کی راہ میں سرفروشی کا وقت آ گیا اور ہمیں اب شہادت کے مواقع نصیب ہوں گے‘ وہاں کچھ وہ بھی ہوں گے کہ جن پر کچھ گھبراہٹ طاری ہو ئی ہو گی. جن کے لیے یہ نیا مرحلہ جس میں جنگ و قتال سے سابقہ تھا ‘ شاید زیادہ ہی کڑی آزمائش بن گیا ہو. ایسے لوگوں سے صاف کہہ دیا گیا : 
اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تَدۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ ’’ کیا تم نے یہ گمان کیا تھا کہ تم (سیدھے سیدھے ) جنت میں داخل ہو جاؤ گے‘‘ وَ لَمَّا یَاۡتِکُمۡ مَّثَلُ الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلِکُمۡ ؕ ’’ حالانکہ ابھی تو تم پر وہ حالات آئے ہی نہیں (وہ آزمائشیں‘ وہ کٹھنائیاں اور وہ مشکلات ابھی آئی ہی نہیں) کہ جو تم سے پہلی اُمتوں کو پیش آئے تھے‘‘. مَسَّتۡہُمُ الۡبَاۡسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلۡزِلُوۡا ’’ فقر و فاقہ اور تکالیف ان پر مسلط ہو گئیں اور وہ ہلا مارے گئے‘‘ حَتّٰی یَقُوۡلَ الرَّسُوۡلُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ مَتٰی نَصۡرُ اللّٰہِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصۡرَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ ﴿۲۱۴﴾ ’’ یہاں تک کہ (وقت کے) رسولؐ اور ان کے ساتھی اہلِ ایمان پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی! (تب انہیں خوشخبری سنائی گئی ) آگاہ رہو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے‘‘. اور اس کے ایک ہی آیت کے بعد مسلمانوں سے فرما دیا گیا : کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِتَالُ وَ ہُوَ کُرۡہٌ لَّکُمۡ ۚ ’’ تم پر یہ قتال فرض کر دیا گیا (یہ دعوت آج اپنے اگلے مرحلے میں داخل ہو گئی) اور یہ تمہیں ناپسند ہے‘‘ .تم پر یہ حکم بڑا بھاری گزر رہا ہے. وَ عَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ۚ ’’ اور ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو درآنحالیکہ اسی میں تمہارے لیے بہتری ہو‘‘. وَ عَسٰۤی اَنۡ تُحِبُّوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ شَرٌّ لَّکُمۡ ؕ ’’ اور ہو سکتاہے کہ کسی چیز سے تمہیں محبت ہو (وہ تمہیں پسند ہو) درآنحالیکہ فی الواقع وہ تمہارے لیے شر ہو‘‘. وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۲۱۶﴾٪ ’’ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘.

ایک آخری بات یہ عرض کرنی ہے کہ یہاں اس سورۂ مبارکہ کے مضامین کا چونکہ بحیثیت مجموعی بھی ایک تجزیہ عرض کیا گیا ہے لہذا اسی حوالے سے یہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ اسی سورۂ مبارکہ میں آگے چل کر تاریخ بنی اسرائیل کی اس اہم جنگ کا تفصیلاً ذکر آیا ہے جسے ان کی تاریخ میں جنگ ِ بدر کے قائم مقام سمجھا جا سکتا ہے جس کے بعد کہ ان کے دُنیوی اقتدار اور جاہ و جلال کے دَور کا آغاز ہوا. یہ جنگ طالوت اور جالوت کے مابین ہوئی جس کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کا وہ عہد ِ حکومت ہے جسے بجا طور پرتاریخ بنی اسرائیل کا زریں دور قرار دیا جاتا ہے. اسی سورۂ مبارکہ میں اس اہم تاریخی واقعے کا ذکر دراصل مسلمانوں کو متنبہ کرنے کے لیے ہے کہ اب وہی مرحلہ تمہاری تاریخ میں بھی آیا چاہتا ہے. یہ گویا پیشگی خبر تھی غزوۂ بدر کی جو نقطۂ آغاز ہے ایک طویل سلسلۂ قتال کا جس کے پہلے مرحلے کا اختتام ہوتا ہے نبی اکرم کی حیات ِ طیبہ میں سفر تبوک پر. اب ان شاء اللہ آئندہ اس منتخب نصاب کے حصّہ پنجم میں صرف ایک تقریر میں کوشش کی جائے گی کہ اس پورے سلسلۂ قتال پر ایک طائرانہ نگاہ ڈال لی جائے. 

وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ ربّ العالمین.