ہم آنحضور کی مَکّی زندگی سے متعلق کچھ باتوں پراِس سے پہلے غور کر چکے ہیں. اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ جب آپؐ مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں کیا صورت حال تھی. مدینہ منورہ میں اوس اور خزرج کے نام سے دو قبیلے تو وہ تھے کہ جن کے بارے میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ وہ وہاں کے اصل راجپوت قبیلے تھے. اوس نسبتاً چھوٹا قبیلہ تھا جبکہ خزرج عددی اعتبار سے بڑا قبیلہ تھا. ان کے علاوہ تین یہودی قبیلے بھی وہاں آباد تھے جن کی حیثیت کچھ مہاجنوں کی سی تھی. ان کا نہ صرف علمی اعتبار سے وہاں ایک رعب اور دبدبہ تھا بلکہ تہذیبی و تمدنی اور ثقافتی اعتبار سے بھی ان کی مدینہ میں ایک حیثیت تھی .اور سب سے بڑھ کر یہ کہ روپے پیسے کے اعتبار سے بھی انہیں برتری حاصل تھی. یہ قبائل مدینے کے اطراف میں آباد تھے اور نہایت مضبوط گڑھیوں اور قلعوں میں رہتے تھے. نبی اکرم جب مدینے تشریف لائے تو اوس اور خزرج کی اکثریت ایمان لے آئی. ان میں سے اگرچہ کثیر تعداد ان لوگوں کی تھی جو صدقِ دل سے ایمان لائے تھے تاہم کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اس بنا پر ایمان لائے کہ چونکہ سردارانِ قبیلہ ایمان لے آئے ہیں تو ہم بھی اسلام قبول کئے دیتے ہیں. اور کچھ لوگ وہاں ایسے بھی تھے کہ جو ایمان تو لے آئے لیکن بادلِ ناخواستہ. اس طور سے ایمانلانے والوں میں دو شخصیتیں بہت نمایاں ہیں‘ ابوعامر اور عبداللہ بن اُبی بن سلول. دونوں کا تعلق قبیلہ خزرج سے تھا کہ جو زیادہ طاقتور اور بڑا قبیلہ تھا. ابوعامر کی نیکی اور دینداری کا وہاں لوہا مانا جاتا تھا اور عبداللہ بن اُبی بن سلول کی سیاسی سمجھ بوجھ کے سب معترف تھے اور اسے ایک بڑا سردار تسلیم کیا جاتا تھا. چنانچہ نبی اکرم کے ورودِ مدینہ سے متصلاً قبل اوس اور خزرج کے مابین اس بات پر اتفاق رائے ہو چکا تھا کہ عبداللہ بن اُبی بن سلول کو بادشاہ مان کر مدینے میں باقاعدہ ایک بادشاہی نظامِ حکومت قائم کر دیا جائے. تاج تیار ہو چکا تھا‘ لیکن جب آنحضور مدینہ منورہ تشریف لائے تو ظاہر بات ہے کہ خورشید رسالت کے طلوع ہونے کے بعد اب نہ ابوعامر راہب کی نیکی اور دینداری کا چراغ جل سکنے کاکوئی امکان موجود تھا اور نہ ہی اب وہ صورت برقرار رہی کہ کسی کے سر پر یہاں تاج ِشاہی رکھا جا سکے. اب وہاں دینی و مذہبی ہی نہیں سیاسی اعتبار سے بھی سیادت و قیادت محمد رسول اللہ کو حاصل ہو گئی تھی.

اس مرحلے پر یہ بات نوٹ کرنے کے لائق ہے اور اس سے قبل بھی اس جانب توجہ دلائی جا چکی ہے کہ آنحضور اور آپؐ کے ساتھی اہل ایمان جان بچا کر مَکّہ سے مدینہ نہیں آئے تھے‘ یہ فرار نہیں تھا 
(نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ) بلکہ یہ ایک اہم مقصد کے لئے ایک ایسے مرکز (Base) میں جمع ہونے کا ایک عمل تھا کہ جو اللہ تعالیٰ نے آنحضورؐ اور مسلمانوں کو عطا فرمایا تھا ‘تاکہ غلبہ دین حق کے اس اہم مقصد کی طرف پیش قدمی کی جا سکے جس کے لئے نبی اکرم کی بعثت ہوئی تھی. مدینے کو دارالہجرت اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے.