نبی اکرم نے مدینے تشریف لاتے ہی سب سے پہلا کام جو کیا وہ آپ کی دوراندیشی اور معاملہ فہمی کا مُنہ بولتا ثبوت ہے. یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپؐ نے اپنے اس مشن کی تکمیل کے لئے فوری طور پر ایک نقشہ کار تیار کیا کہ جس کے مختلف تقاضے آپ کے سامنے اس وقت پوری وضاحت کے ساتھ موجود تھے‘ چنانچہ اس کے مطابق عملی اقدامات کا آغاز فرما دیا. مدینہ تشریف لاتے ہی آپؐ نے پہلا کام یہ کیا کہ یہودیوں سے معاہدے کر لئے. اور اس طرح انہیں معاہدوں میں جکڑ لیا کہ بعد کے نو دس سالوں کے دوران ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہود ان معاہدوں کی وجہ سے ایک عجیب مشکل میں گرفتار ہو گئے تھے. نبی اکرم اور مسلمانوں کے خلاف شدید جذبات رکھنے کے باوجود وہ کوئی فیصلہ کن اقدام کرنے کے قابل نہیں رہے تھے اور خود کو بےدست و پا محسوس کرتے تھے‘ ہاں درپردہ سازش اور ریشہ دوانی کرنے کی کوششیں انہوں نے ضرور کیں اور بعض مواقع پر مشرکین مَکّہ کو اشتعال دلا کر حملہ آور ہونے کی ترغیب دی لیکن وہ براہِ راست اور کھلم کھلا نبی اکرم کے مقابلے میں نہیں آ سکے. یہی معاہدے کہ جو اُن کے پاؤں کی بیڑیاں بنے تھے بالآخر اُن کے گلے کا طوق بھی بنے. اور انہی معاہدوں کو توڑنے کی پاداش میں وہ تینوں قبیلے باری باری اپنے انجام کو پہنچے. ان میں سے دو قبیلوں کو مختلف مراحل پر مدینہ بدر کیا گیا اور ایک کو اُن کی بدعہدی کی سخت ترین سزا دی گئی کہ ان کے تمام لڑائی کے قابل مَردوں کے سر قلم کئے گئے.