آج گفتگو کے آغاز میں سورۂ براء ۃ کی جس آیت کی تلاوت کی گئی تھی اس میں اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے ان کی جانیں اور مال جنت کے عوض خرید لئے ہیں. گویا ایک بیع و شراء ہو چکا ہے‘ ایک سودا طے پا چکا ہے. اس جسم و جان اور مال و منال کی حیثیت ایک امانت کی ہے کہ جیسے ہی مطالبہ ہو‘ حاضر کر دیں. چنانچہ اس آیت کے یہ الفاظ خاص طور پر لائق توجہ ہیں یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَیَقۡتُلُوۡنَ وَ یُقۡتَلُوۡنَ ۟ کہ وہ اللہ کی راہ میں قتال کرتے ہیں‘ قتل کرتے بھی ہیں اور خود قتل ہوتے بھی ہیں. یعنی میدانِ جنگ میں پامردی اور جانفشانی سے کام لیتے ہوئے جہاں اللہ اور اس کے رسول کے باغیوں کی گردنیں اڑاتے ہیں وہاں خود اپنی جانوں کا نذرانہ بھی بارگاہِ ربّانی میں پیش کر کے سرخرو ہونے کو باعث اعزاز جانتے ہیں. اس کے بعد اہل ایمان کی تسلی کے لئے فرمایا کہ وَعۡدًا عَلَیۡہِ حَقًّا فِی التَّوۡرٰىۃِ وَ الۡاِنۡجِیۡلِ وَ الۡقُرۡاٰنِ ؕ جو معاہدہ ہوا ہے‘ جو بیع و شراء ہوا ہے‘ اب اس کا پورا کرنا اللہ کے ذمے ہے. یعنی اہل ایمان اگر اس معاہدے کو نبھائیں گے تو اللہ کا یہ پختہ وعدہ ہے کہ اس کی قیمت وہ جنت کی شکل میں اہل ایمان کو ضرور ادا کرے گا. یہ وہ پختہ وعدہ ہے جو توراۃ میں بھی ہوا‘ انجیل میں بھی ہوا اور انتہائی موثق اور مؤکد انداز میں قرآن میں بھی ہوا. مزید تسلی کے لئے فرمایا وَ مَنۡ اَوۡفٰی بِعَہۡدِہٖ مِنَ اللّٰہِ اور اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا وفا کرنے وا لااورکون ہو گا؟ فَاسۡتَبۡشِرُوۡا بِبَیۡعِکُمُ الَّذِیۡ بَایَعۡتُمۡ بِہٖ ؕ تو اے اہل ایمان! خوشیاں مناؤ اس بیع کی جو تم نے کی ہے. وہ سودا جو تم نے کیا ہے اس سے زیادہ کامیاب اور اس سے زیادہ نفع بخش سودا اور کوئی نہیں ہو سکتا. وَ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿۱۱۱﴾ ’’اور یہی تو ہے اصل اور بڑی کامیابی‘‘!