اس قتال فی سبیل اللہ کا قرآن حکیم نے جو ہدف معین کیا ہے وہ بھی واضح طور پر ہمارے سامنے رہنا چاہئے. اس سے پہلے سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۹۳ کے درج ذیل الفاظ کے حوالے سے بھی یہ مضمون ہمارے مطالعے میں آ چکا ہے کہ وَ قٰتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ لِلّٰہِ ؕ اے مسلمانو! جنگ کرو اِن کفار او ر مشرکین سے‘ یہاں تک کہ فتنہ بالکل فرو ہو جائے اور دین اللہ ہی کا ہو جائے. یہی بات انتہائی مؤکد ہو کر قدرے مزید تفصیل کے ساتھ سورۃ الانفال میں بھی آئی ہے کہ جس میں غزوۂ بدر کے حالات و واقعات کا تفصیلی ذکر موجود ہے‘ جو نقطۂ آغاز ہے اس سلسلۂ قتال کا. وہاں فرمایا : وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ اور ان کفار اور مشرکین کے ساتھ جنگ جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ بالکل فرو ہو جائے اور دین کل کا کل اللہ کے لئے ہو جائے. ایسا نہ ہو کہ زندگی کے بعض گوشوں میں اللہ کی اطاعت ہو رہی ہو اور بعض گوشوں میں اپنے نفس کی یا زمانے کے چلن کی یا کسی باطل نظام کی پیروی کی جا رہی ہو. زندگی کا ہر گوشہ اور بالخصوص اجتماعی نظام جب تک اللہ کے تابع نہیں ہوتا تمہاری یہ جنگ جاری رہنی چاہئے.

سورۃ الصف کی مرکزی آیت جب ہمارے زیر مطالعہ تھی کہ جس کے الفاظ یہ ہیں: 
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ تواُس وقت عرض کیا گیا تھا کہ یہاں پر ’’الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ‘‘سے کل کا کل نظام زندگی مراد ہے. اس کے لئے سورۃ الانفال کی یہ آیت درحقیقت ’’اَلْقُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعْضًا‘‘ کے اعتبار سے ایک یقینی دلیل کی حیثیت رکھتی ہے کہ ’’الدِّیۡنِ ‘‘ کے لئے بدل کے طور پر’’کُل‘‘ کا لفظ یا تو سورۃ الصف کی اس آیت میں آیا ہے جو قرآن حکیم میں دو اور مقامات پر بھی وارد ہوئی ہے اور یا سورۃ الانفال کی اس آیت میں آیا ہے کہ وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ اور یہاں کل دین کا ترجمہ تمام ادیان کرنا ممکن نہیں. پورا نظامِ زندگی بحیثیت کل اللہ کے دین کے تحت آ جائے‘ یہ ہے مقصد بعثت محمد رسول اللہ کا.