سورۃ الانفال ‘ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے‘ تقریباً پوری کی پوری غزوۂ بدر ہی سے متعلق ہے. بعض ایسے مسائل جو غزوۂ بدر کے بعد اٹھ کھڑے ہوئے ‘ مثلاً مالِ غنیمت کی تقسیم کا مسئلہ‘ ان کا حل بھی اس سورۃ میں تجویز کیا گیا اور اس غزوے کے دوران جو حالات پیش آئے اور مسلمانوں سے اگر کہیں کسی کوتاہی کا صدور ہوا‘ ان سب پر اللہ کی طرف سے ایک نہایت جامع تبصرہ اور آئندہ کے لئے اصولی ہدایات بھی اس سورۂ مبارکہ میں شامل ہیں. گویا پوری سورۃ غزوۂ بدر کے گرد گھومتی ہے. غزوۂ بدر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے غزوۂ بدر کو یوم الفرقان قرار دیا‘ یعنی حق و باطل کے مابین تمیز والا دن. اس دن معلوم ہو گیا کہ اللہ کی نصرت و حمایت کس کے ساتھ ہے‘ ان کفارِ مَکّہ کے ساتھ کہ جو ایک ہزار کی تعداد میں ہر طرح کے ہتھیار سجا کر میدانِ بدر میں آئے تھے یا اِن تین سو تیرہ بے سروسامان مسلمانوں کے ساتھ جن کا رسالہ کل دو گھوڑوں پر مشتمل تھا اور جن میں سے سب کے پاس ہتھیار بھی مکمل نہ تھے. کسی کے پاس تلوار تھی تو نیزہ نہ تھا اور اگر نیزہ کسی کے پاس تھا تو تلوار نہ تھی‘ اور ایسے بھی تھے جو نیزہ اور تلوار دونوں سے تہی تھے. پھر یہ کہ ان بے سروسامان مسلمانوں کی عظیم اکثریت ان انصار پر مشتمل تھی کہ جن کو قریش جنگجو قوم ماننے کے لئے تیار نہ تھے.

ان کے بارے میں قریش مَکّہ کا یہ خیال تھا کہ یہ کاشت کار لوگ ہیں‘ لڑنے بھڑنے سے انہیں کیا سروکار ! وہ تین سو تیرہ ایک ہزار کے کیل کانٹے سے لیس ہر طرح سے مسلح لشکر سے ٹکرا گئے اور اسے ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا. یوم سمجھئے کہ مَکّے نے اپنی اصل طاقت کو وہاں اگل دیا تھا‘ اس کی کُل جمعیت میدانِ بدر میں موجود تھی. عتبہ بن ربیعہ اور ابوجہل جیسے بڑے بڑے سردار کھجور کے کٹے ہوئے تنوں کی مانند میدانِ بدر میں پڑے تھے. وہ دن واقعی یوم الفرقان تھا‘ اس نے حق و باطل کے مابین تمیز کر دی ‘ دودھ کا دودھ پانی کا پانی جدا کر دیا. اس شاندار فتح سے مسلمانوں کا مورال یقینا بہت بلند ہوا. پورے علاقے پر مسلمانوں کا دبدبہ قائم ہو گیا. اس طرح ہجرت کے دو ہی سال بعد صورتِ حال ایک دم اس طرح تبدیل ہو گئی کہ وہ کسمپرسی اور مظلومیت کا دَور گویا کہ ختم ہوا اور مسلمانوں کی دھاک پورے علاقے پر بیٹھ گئی. صورت ِ حال کی یہ ساری تبدیلی دراصل نتیجہ تھا غزوۂ بدر کا جسے اللہ تعالیٰ نے بجا طور پر یوم الفرقان قرار دیا تھا!