غزوۂ بدر کے جن حالات اور واقعات پر تبصرہ سورۃ الانفال میں آیا ہے ظاہر بات ہے کہ اس مختصر گفتگو میں اس کی اہم باتوں کی طرف بھی اشارہ ممکن نہیں ہے‘ البتہ سورۃ الانفال کے آغاز و اختتام پر وارد شدہ چند آیات کے حوالے سے بطورِ یاددہانی ایک ایسی حقیقت کی طرف توجہ مناسب رہے گی کہ جو ہمارے اس منتخب نصاب کے لئے گویا کہ عمود اور اس کے مرکزی مضمون کی حیثیت رکھتی ہے. اس سورۂ مبارکہ کے بالکل شروع میں اور پھر اس کے اختتام پر ایسی آیات وارد ہوئی ہیں کہ جنہوں نے سورۃ الحُجرات کی آیت ۱۵ کی مانند حقیقی ایمان کی تعریف کو بہت مختصر اور جامع الفاظ میں اپنے اندر سمو لیا ہے اور ایمان کے دونوں اجزاء (یعنی یقینِ قلبی اور جہاد فی سبیل اللہ) کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ الگ الگ نمایاں کیا ہے. ایمانِ حقیقی کے کچھ اثرات تو وہ ہیں جن کا تعلق باطنی کیفیات کے ساتھ ہوتا ہے. اللہ کی یاد اگر دل میں تازہ ہو ‘ اس کی عظمت اور دبدبہ و جلال سے اگر انسان کو کسی قدر آ گاہی ہو اور ہر دم یہ احساس اگر اس کے دامن گیر ہو کہ اس کا ہر عمل اللہ کی نگاہ میں ہے تو اس کا طرزِ عمل ایک خاص سانچے میں ڈھل جاتا ہے‘ اس کے صبح و شام کے انداز میں ایک خاص تغیر واقع ہوتا ہے جو اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ وہ جھوٹ موٹ کا مدعی ٔ ایمان نہیں ہے بلکہ ایمان اس کے دل میں راسخ ہو چکا ہے. اور ایمانِ حقیقی کا دوسرا رکنِ رکین وہ ہے جس کے لئے سورۃ الحُجرات میں ’’ جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں اور جس کا ذکر اس کے بعد سورۃ الصف میں بھی ہمارے مطالعے میں آ چکا ہے. سورۃ الانفال میں ایمان کے ان دونوں ارکان کو ایک اچھوتے انداز میں جمع کیا گیا ہے. آغاز میں آیات ۲ تا ۴ میں فرمایا:

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ وَ اِذَا تُلِیَتۡ عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُہٗ زَادَتۡہُمۡ اِیۡمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ ۚ﴿ۖ۲﴾الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ؕ﴿۳﴾اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا ؕ لَہُمۡ دَرَجٰتٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ وَ مَغۡفِرَۃٌ وَّ رِزۡقٌ کَرِیۡمٌ ۚ﴿۴

’’ مؤمن تو بس وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل لرز اٹھیں اور جب انہیں اس کی آیات پڑھ کر سنائی جائیں تو اس سے ان کے ایمان میں اضافہ ہو جائے ‘اور وہ اپنے ربّ پر توکل کرتے ہیں. وہ لوگ کہ جو نماز کو قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے لگاتے اور کھپاتے ہیں. یہ ہیں وہ لوگ کہ جو حقیقتاً مؤمن ہیں. ان کے لئے ان کے ربّ کے پاس اعلیٰ درجات اور بخشش اور نہایت اعلیٰ رزق ہے.‘‘

بندۂ مؤمن کی زندگی کا ایک رُخ‘ یا یوں کہئے کہ بندۂ مؤمن کی شخصیت کی تصویر کا ایک پہلو اِن تین آیات میں آ گیا. اسی تصویر کا دوسرا رُخ وہ ہے جو سورۃ الانفال کے بالکل آخر میں آیت ۷۴ میں آ رہا ہے. یہاں ذہن میں رکھئے کہ اس سورۂ مبارکہ کی پہلی آیت کے بعد وہ تین آیات آئی ہیں جن کا مطالعہ ابھی ہم نے کیا‘ جن میں بندۂ مؤمن کی تصویر کا ایک دوسرا رُخ سامنے آتا ہے اور اس سورۃ کی آخری آیت سے پہلی 
(Last but one) آیت میں دوسرے پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے جس کا اب ہمیں مطالعہ کرنا ہے. فرمایا :

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ ہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ الَّذِیۡنَ اٰوَوۡا وَّ نَصَرُوۡۤا اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا ؕ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ رِزۡقٌ کَرِیۡمٌ ﴿۷۴

’’ اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور انہوں نے جہاد کیا اللہ کی راہ میں اور وہ لوگ کہ جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی‘ یہ ہیں وہ لوگ کہ جو حقیقی مؤمن ہیں . ان کے لئے مغفرت بھی ہے اور بہت اعلیٰ رزق بھی.‘‘

معلوم ہوا کہ بندۂ مؤمن کی تصویر کے یہ دو رُخ ہیں اور ان دونوں کے مجموعے سے ہی بندۂ مؤمن کی تصویر مکمل ہوتی ہے. ہمارے اس منتخب نصاب میں اس سے پہلے سورۂ آلِ عمران کے آخری رکوع میں اہلِ ایمان کی زندگی کا ایک نقشہ سامنے لایا گیا تھا اور وہاں ہجرت اور جہاد و قتال فی سبیل اللہ والے پہلو کو اُجاگر کیا گیا تھا. یہ وہی بات ہے جس کا تذکرہ یہاں سور ۃ الانفال کے آخر میں آیا ہے. سورۂ آلِ عمران کی آیت کے الفاظ ذرا ذہن میں تازہ کیجئے :

فَالَّذِیۡنَ ہَاجَرُوۡا وَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ وَ اُوۡذُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِیۡ وَ قٰتَلُوۡا وَ قُتِلُوۡا ... (آیت ۱۹۵

دوسرا نقشہ یا بندۂ مؤمن کی تصویر کا دوسرا رُخ وہ ہے جو اس سے قبل ہمارے زیر مطالعہ آچکا ہے. ارشاد ِ الٰہی ہے: 

رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَ اِیۡتَآءِ الزَّکٰوۃِ ۪ۙ یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِیۡہِ الۡقُلُوۡبُ وَ الۡاَبۡصَارُ ﴿٭ۙ۳۷﴾ (النور:۳۷)

اب دونوں کو جمع کرنے سے بندۂ مؤمن کی شخصیت کی تصویر مکمل ہوتی ہے .قرآن مجید میں ہم دیکھتے ہیں کہ ؏ ’’اِک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں‘‘ کے مصداق ایک ہی حقیقت کو مختلف اسالیب میں بیان کیا جاتا ہے. قرآن حکیم کی مذکورہ بالا آیات اس کی واضح مثال کا درجہ رکھتی ہیں.