اس کے بعد آیت کے اگلے ٹکڑے میں واضح فرما دیا کہ حالات کی یہ تبدیلی اور فتح و شکست کا یہ الٹ پھیر بھی حکمت سے خالی نہیں ہے. چنانچہ فرمایا:

وَ تِلۡکَ الۡاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیۡنَ النَّاسِ ۚ 
’’یہ تو وہ دن ہیں جنہیں ہم لوگوں کے مابین الٹتے پلٹتے رہتے ہیں‘‘.

یہ اونچ نیچ کا معاملہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت بالغہ کے تحت کرتا ہے. 

وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ یَتَّخِذَ مِنۡکُمۡ شُہَدَآءَ ؕ 
’’تاکہ اللہ تعالیٰ دیکھے کہ کون ہیں واقعتا اہل ایمان اور تاکہ وہ تم میں سے بعض کو گواہ بنا لے. (کچھ کو مرتبہ شہادت عطا فرما دے)‘‘.

ابتلاء و آزمائش کی یہی تو وہ کسوٹی ہے جس پر تمہیں پرکھا جائے گا. ان امتحانات کے ذریعے تمہارے ایمان کو جانچنا مقصود ہے. یہ مضمون اس سے پہلے سورۃ العنکبوت کے درس میں ہمارے زیر مطالعہ آ چکا ہے‘ بلکہ سورۃ البقرۃ کی بعض آیات کے حوالے سے بھی سامنے آ چکا ہے. ساتھ ہی فرمایا کہ تم میں سے بعض جاں نثاروں کی جان کا نذرانہ قبول کر کے وہ تم میں سے کچھ کو گواہ بنا لیناچاہتا ہے‘ انہیں شہادت سے سرفراز فرمانا چاہتا ہے. یہ ہے وہ مقام جس کے بارے میں عرض کیا گیا تھا کہ پورے قرآن حکیم میں صرف یہ وہ آیت ہے کہ جہاں ’’شہید‘‘ کے معنی مقتول فی سبیل اللہ لینے کا امکان ہے. گویا مسلمانوں کے لئے خوشخبری ہے کہ اللہ ان میں سے بعض سرفروشوں کو کہ جو اپنی جان دے کر اللہ کی گواہی دیں‘ اس بلند مرتبے اور مقام پر فائز کرنا چاہتا ہے جس کا نام 
مرتبۂ شہادت ہے. اس آیت کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے:

وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۱۴۰﴾ۙ ’’اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا‘‘.
کہیں شیطان تمہارے ذہن میں یہ خیال نہ ڈال دے کہ اللہ نے اگر کفار کو کچھ فتح دے دی ہے تو شاید وہ اب کفار سے محبت کرنے لگا ہے!

اگلی آیت میں اس حکمتِ ابتلاء کو مزید واضح فرمایا گیا : 
وَ لِیُمَحِّصَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ’’تمحیص‘‘ کا لفظ کسی چیز کو چھان پھٹک لینے کے مفہوم میں آتا ہے. ہمارے ہاں اردو بول چال میں بحث و تمحیص کی ترکیب عام استعمال ہوتی ہے. بحث کے معنی ہیں کریدنا اور تمحیص سے مراد ہے کہ جو کچھ کرید کر حاصل ہواہے اس کو چھان پھٹک کر اس میں سے جو چیز مطلوب ہے‘ اسے نکال لینا. تو وَ لِیُمَحِّصَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کا ترجمہ یہ ہو گا کہ ’’اور تاکہ اللہ اہل ایمان کی چھانٹی کرے‘‘ یعنی اللہ چاہتا ہے کہ اس طرح کے کٹھن امتحانات سے اہل ایمان کو گزار کر انہیں جانچ لے کہ ان میں سے کون واقعتا اللہ‘ اس کے رسول اور آخرت پر یقین رکھنے والے ہیں اور کون ہیں کہ جو نام نہاد مؤمن ہیں اور محض روایتی طور پر اور دوسروں کی تقلید میں دائرۂ اسلام میں شامل ہو گئے ہیں‘ کہ چونکہ قبیلے کے سردار نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا لہذا وہ بھی اس کی پیروی میں ایمان لے آئے. وَ یَمۡحَقَ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۱۴۱﴾ ’’اور تاکہ اللہ کافروں کو مٹا دے‘‘. کہ اللہ تعالیٰ کا یہ قطعی فیصلہ ہے کہ وہ کافروں کو تو بالآخر مٹا کر چھوڑے گا‘ البتہ اس درمیانی عرصے میں یہ اونچ نیچ اس غرض سے ہوتی ہے کہ امتحان‘ ابتلاء اور آزمائش کے تقاضے پورے ہو جائیں. اس کے بعد آتی ہے وہ آیت جس کا اس سے پہلے بھی حوالہ دیا جا چکا ہے:

اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تَدۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَعۡلَمِ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ جٰہَدُوۡا مِنۡکُمۡ وَ یَعۡلَمَ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۴۲﴾ 
’’کیا تم نے یہ سمجھا تھا کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تو اللہ نے یہ دیکھا ہی نہیں کہ کون ہیں تم میں سے واقعتا جہاد کرنے والے (جو جہاد کا حق ادا کرنے والے ہیں) اور ابھی اس نے دیکھا ہی نہیں کہ کون ہیں تم میں سے جو واقعتا صبر کرنے اور جھیلنے والے ہیں‘‘.

لفظ 
’’صابرین‘‘ کو یہاں خاص طور پر نوٹ کیجئے. ہمارے اس منتخب نصاب میں قرآن حکیم کے جو مقامات آج کل ہمارے زیر مطالعہ ہیں وہ ’’تواصی بالصبر‘‘ ہی کی تفاصیل پر مشتمل ہیں. فرمایا:

وَ لَقَدۡ کُنۡتُمۡ تَمَنَّوۡنَ الۡمَوۡتَ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَلۡقَوۡہُ ۪
’’اور تم موت کی تمنا کیا کرتے تھے اس سے پہلے کہ تم اس سے ملاقات کرتے‘‘.

یہاں اس جذبۂ شوقِ شہادت کی طرف اشارہ ہے جس کا اظہار بعض مسلمانوں کی طرف سے اس مشاورت کے دوران ہوا تھا جو آنحضور نے غزوۂ اُحد سے قبل منعقد فرمائی تھی. آرزو کرنا اس وقت تک بہت آسان ہوتا ہے کہ جب تک موت سامنے نہ آ کھڑی ہو. لیکن جب موت سے آنکھیں چار ہوتی ہیں تومعاملہ بڑا مختلف ہوتا ہے.

فَقَدۡ رَاَیۡتُمُوۡہُ وَ اَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ ﴿۱۴۳﴾٪ 
’’تو اب تم نے اس موت کو دیکھ لیا ہے اور اس سے آنکھیں چار کر لی ہیں‘‘.