اگلی آیت میں قدرے تنبیہہ کا انداز ہے وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ اور اے مسلمانو! یہ تمہیں کیا ہوا تھا کہ آنحضور کی شہادت کی خبر سن کر تمہاری ہمتیں جواب دے گئیں! تمہارا تعلق محمد ( ) سے ہے یا اللہ سے ہے؟…تمہیں سوچنا چاہئے کہ تمہارا تعلق تو اللہ کے ساتھ ہے جو سب کا خالق و مالک ہے. ’’محمد تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک رسول ہیں‘‘. قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ ؕ ’’ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزرے ہیں. تو کیا اگر ان کا انتقال ہو جائے یا وہ اللہ کی راہ میں قتل ہو جائیں تو تم اپنی ایڑیوں کے بل لوٹ جاؤ گے‘‘. وَ مَنۡ یَّنۡقَلِبۡ عَلٰی عَقِبَیۡہِ فَلَنۡ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیۡئًا ؕ ’’اور جو کوئی اپنی ایڑیوں کے بل لوٹ گیا تووہ اللہ کا کچھ نہ بگاڑے گا‘‘. وَ سَیَجۡزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیۡنَ ﴿۱۴۴﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ اپنے شکر گزار بندوں کو (حق ماننے والوں کو) عنقریب جزا عطا فرمانے والا ہے‘‘.

یاد رہے کہ یہی وہ آیت ہے جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تلاوت فرمائی تھی حضور کے انتقال کے وقت‘ جبکہ نبی اکرم سے جدائی کا صدمہ مسلمانوں کے لئے ناقابل برداشت تھا. حضرت عمر فاروق ؓ اس صورتِ حال سے اس درجے متاثر تھے کہ ننگی تلوار لے کر بیٹھ گئے کہ جس نے کہا کہ محمد کا انتقال ہو گیا ہے میں اس کی گردن اڑا دوں گا. اب ظاہر بات ہے کہ جلال فاروقی ؓ کے سامنے کسی کو دم مارنے کا یارا نہ تھا. ہاں‘ یہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی تھے کہ جنہوں نے اس صورتِ حال کو سنبھالا. اس موقع پر حضرت ابوبکر ؓ تشریف لائے‘ سیدھے حجرۂ عائشہؓ میں گئے‘ بیٹی کا گھر تھا‘ جاتے ہی آنحضور کی پیشانی سے چادر ہٹائی‘ بوسہ دیا‘ واپس آئے اورپھر خطبہ دیا:

مَنْ کَانَ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَاِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ ‘ وَمَنْ کَانَ یَعْبُدُ اللّٰہَ فَاِنَّ اللّٰہَ حَیٌّ لَّا یَمُوْتُ 
’’لوگو! جو کوئی بھی محمد کی پرستش کرتا تھا وہ سن لے کہ محمد کا انتقال ہو گیا ( ) اور جو کوئی اللہ کا پرستار ہے ‘ اللہ کی پرستش کرنے والا ہے‘ اسے مطمئن رہنا چاہئے کہ وہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے جس پر کبھی موت واردہونے والی نہیں‘‘.

یہ اصولی بات ارشاد فرمانے کے بعد آپؓ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:

وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّنۡقَلِبۡ عَلٰی عَقِبَیۡہِ فَلَنۡ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیۡئًا ؕ وَ سَیَجۡزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیۡنَ ﴿۱۴۴﴾ 

اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی گردن جھکتی چلی گئی اور آپؓ نے تلوار کو نیام میں ڈال لیا. حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ مجھے ایسے محسوس ہوا کہ جیسے یہ آیت ابھی نازل ہوئی ہے. 

اب اگلی آیت کے الفاظ پر توجہ مرکوز کیجئے: 
وَ مَا کَانَ لِنَفۡسٍ اَنۡ تَمُوۡتَ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ کسی ذی نفس کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ کے اذن کے بغیر اس کی موت واقع ہو جائے. کِتٰبًا مُّؤَجَّلًا ؕ وہ تو ایک معین وقت ہے جو لکھ دیا گیا ہے. وَ مَنۡ یُّرِدۡ ثَوَابَ الدُّنۡیَا نُؤۡتِہٖ مِنۡہَا ۚ تو اس مہلت عمر میں کہ جو انسان کو ملی ہے ‘جو کوئی دنیا کا بدلہ چاہتا ہے‘ جس کی سعی و جہد محض اس دنیا کے لئے ہے‘ اسے ہم اس میں سے کچھ دے دیتے ہیں‘ مال و اسبابِ دُنیوی میں سے کچھ اسے عطا کر دیتے ہیں. وَ مَنۡ یُّرِدۡ ثَوَابَ الۡاٰخِرَۃِ نُؤۡتِہٖ مِنۡہَا ؕ اور جو کوئی آخرت کا طالب ہے‘ جس کے پیش نظر اپنی جدوجہد کا وہ نتیجہ ہے کہ جو آخرت میں نکلنے والا ہے تو ہم اسے اس میں سے عطا فرمائیں گے‘ اس کے لئے آخرت کا اجر محفوظ ہو گا. وَ سَنَجۡزِی الشّٰکِرِیۡنَ ﴿۱۴۵﴾ اور ہم بہت جلد شکر کرنے والوں کو بدلہ عطا کریں گے.

اگلی آیت میں فرمایا : 
وَ کَاَیِّنۡ مِّنۡ نَّبِیٍّ قٰتَلَ ۙ مَعَہٗ رِبِّیُّوۡنَ کَثِیۡرٌ ۚ اور کتنے ہی ایسے نبی گزرے ہیں کہ بہت سے اللہ والوں نے ان کے ساتھ ہو کر جنگ کی فَمَا وَہَنُوۡا لِمَاۤ اَصَابَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ مَا ضَعُفُوۡا وَ مَا اسۡتَکَانُوۡا ؕ توا للہ کی راہ میں جو تکلیفیں بھی اُن پر آئیں اس پر وہ بددل نہیں ہوئے‘ سست نہیں پڑے‘ انہوں نے تکالیف کے مقابلے میں کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا اور نہ ہی وہ باطل کے آگے سرنگوں ہوئے. وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۴۶﴾ اور اللہ تعالیٰ تو ایسے ہی صبر کرنے والوں اور ثابت قدم رہنے والوں سے محبت کرتا ہے. اس کی محبوبیت کا مقام تو انہی کو حاصل ہوتا ہے جو ہرچہ بادا باد کی کیفیت سے اللہ کی راہ میں ڈٹ جانے والے ہیں.
آگے فرمایا : 
وَ مَا کَانَ قَوۡلَہُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوۡا رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا اور ان کی بات تو بس یہی تھی‘ ان کی عرض داشت تو بس اتنی تھی کہ وہ یہ التجا کرتے رہے کہ اے ہمارے ربّ !ہماری خطاؤں سے درگزر فرما. وَ اِسۡرَافَنَا فِیۡۤ اَمۡرِنَا اور ہم سے اپنے معاملات میں جو بھی زیادتی ہوئی ہے اس کو بخش دے وَ ثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا اور ہمارے قدموں کو جما دے وَ انۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۱۴۷﴾ اور ہمیں کافروں پر فتح عطا فرما. فَاٰتٰىہُمُ اللّٰہُ ثَوَابَ الدُّنۡیَا وَ حُسۡنَ ثَوَابِ الۡاٰخِرَۃِ ؕ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا کا بدلہ بھی عطا فرمایا اور آخرت کا بھی بہت ہی عمدہ اور اعلیٰ بدلہ دیا. وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۱۴۸﴾٪ اور اللہ ایسے ہی احسان کرنے والوں سے‘ حسن عمل کا مظاہرہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.

غزوۂ اُحد کے حالات پر جو طویل تبصرہ قرآن حکیم میں وارد ہوا ہے ان میں سے چند آیات کا ہم نے سطورِ بالا میں مطالعہ کیا ہے جس سے اس بات کی طرف واضح رہنمائی ملتی ہے کہ اہل ایمان کو ابتلاؤں اور آزمائشوں سے دوچار کرنے کی اصل حکمت کیا ہے. اور وہ حکمت یہ ہے کہ مسلمانوں کی چھانٹی ہو جائے‘ سچے مسلمانوں اور نام نہاد مسلمانوں کے درمیان تمیز ہو جائے‘ پھر یہ کہ یہ آزمائشیں اہل ایمان کی مزید تربیت کا ذریعہ بھی بنتی ہیں کہ آزمائش کی ان بھٹیوں سے گزرو تو کندن بن کر نکلو. اس کے لئے اللہ تعالیٰ حالات کو ادلتا بدلتا رہتا ہے. وہ چاہتا تو تمہیں کوئی تکلیف نہ پہنچتی‘ کوئی تمہیں گزند نہ پہنچا سکتا‘ لیکن پھر تمہیں یہ کیسے معلوم ہوتا کہ تمہاری صفوں میں ابھی کہاں کہاں کمزوری موجود ہے. تمہاری جمعیت کے اندر کون کون سے گوشے ایسے ہیں کہ جہاں ابھی مزید استحکام کی ضرورت ہے. آئندہ کے کٹھن تر مراحل سے نبرد آزما ہونے کے لئے تمہارا اپنی تمام کمزوریوں پر متنبہ ہونا نہایت ضروری ہے. تبھی تمہارے لئے یہ ممکن ہو گا کہ اپنی صفوں کو از سر نو ترتیب دے کر انہیں تطہیر کے عمل سے گزار سکو اور اس طرح اپنی ہمت کو مجتمع کر کے آئندہ آنے والے مراحل کے لئے مناسب تیاری کر سکو!