بہرحال اس دو طرفہ گفت و شنید کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک مصالحت ہو جاتی ہے. وہ مصالحت کہ جو بظاہر نبی اکرم کی طرف سے کسی قدر دب کر ہو رہی ہے‘ بظاہر کفر کو اِس میں ایک غالب حیثیت حاصل ہے. طے ہو رہا ہے کہ آپ اس سال عمرہ نہیں کریں گے‘ اسی طرح واپس چلے جائیں گے‘ ہاں اگلے سال عمرہ ادا کرنے کے لیے آ سکتے ہیں. آئندہ دس سال کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ (No War Pact) ہو رہا ہے. اس میں کفار کی طرف سے یہ شرط بھی رکھی جاتی ہے کہ اگر کوئی مسلمان مکہ سے بھاگ کر مدینہ پہنچا تو آپ کو واپس کرنا ہو گا اور اگر مدینہ سے کوئی مسلمان مرتد ہو کر مکہ میں آجاتا ہے تو ہم اس کو واپس کرنے کے پابند نہیں ہوں گے. آنحضور اس شرط کو بھی تسلیم فرما لیتے ہیں. یہ ساری شرطیں ُمنہ سے بول رہی ہیں کہ نبی اکرم کی طرف سے کچھ دب کر صلح کی جا رہی ہے. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں اضطراب و بے چینی ہے. وہ بے چینی خاص طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شخصیت میں نمایاں ہو جاتی ہے. پریشان ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے‘ کیوں ہو رہا ہے. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہتے ہیں کہ کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ اگر حق پر ہیں تو پھر ہم دب کر صلح کیوں کر رہے ہیں؟ یہی سوال وہ کسی قدر نامناسب لہجے میں خود نبی اکرم سے بھی کرتے ہیں‘ جس میں شدتِ جذبات کا رنگ غالب تھا‘ جس پر کہ پھر ساری عمر وہ کف تأسف ملتے رہے اور افسوس کرتے رہے. لیکن ظاہر بات ہے کہ یہ انداز درحقیقت حمیّت و غیرتِ ایمانی کا مظہرتھا.

وہی حمیّت و غیرتِ ایمانی ایک اور انداز میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بھی اُس موقع پر ظاہر ہوئی جب معاہدہ لکھا جا رہا تھا. حضور اِملا 
(dictate) کروا رہے ہیں اور حضرت علی ؓ لکھ رہے ہیں: ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘. قریش کا نمائندہ اعتراض کرتا ہے کہ نہیں‘جو پرانا انداز تھا اسی کو اختیار کیا جائے. ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ کی بجائے ’’بِاسْمِکَ اللّٰھُمَّ‘‘ کے الفاظ لکھے جائیں جو ہماری پرانی روایت کے مطابق ہیں. حضور نے فرمایا ٹھیک ہے. آگے لکھا جاتا ہے : ’’یہ ہے وہ معاہدہ جو محمد ٌرسول اللہ اور قریش کے مابین ہوا‘‘. اس پر نکتۂ اعتراض بلند کیا جاتا ہے کہ ہم آپ کو اللہ کا رسول نہیں مانتے‘ اگر رسول مان لیں تو سارا جھگڑا ختم ہو جائے‘ لہذا یوں لکھا جائے کہ: ’’یہ محمدبن عبد اللہ اور قریش کے مابین معاہدہ ہے‘‘. حضور مسکراتے ہوئے حضرت علی ؓ سے فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہ‘‘ کے الفاظ مٹا دو. حضرت علی رضی اللہ عنہ عرض کرتے ہیں کہ حضور! میرے اندر اس کی تاب نہیں ہے. گویایہاں بظاہر حکم عدولی ہو رہی ہے لیکن یہ بھی درحقیقت غیرت و حمیت ِایمانی کا اظہار تھا. حضور فرماتے ہیں کہ مجھے دکھاؤ وہ الفاظ کہاں ہیں! اور پھر اپنے دست مبارک سے ’’رسول اللہ‘‘ کے الفاظ مٹا دیتے ہیں.

اس پورے پس منظر میں جو بات دراصل سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ بظاہر دب کر جو صلح کی جا رہی تھی وہ کچھ ہی عرصے کے بعد ایک کتنی بڑی فتح مسلمانوں کے حق میں ثابت ہوئی. اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حالات کا رُخ کس درجے محمد ٌرسول اللہ پر روشن تھا. اس صلح کو بلاشبہ آپؐ کے تدبر کا شاہکار قرار دیا جا سکتا ہے. 
تمام مسلمانوں کی ذہنی وجذباتی کیفیت اُس وقت کم و بیش وہی تھی جس کی کسی قدر عکاسی حضرت عمر اور حضرت علی (رضی اللہ عنہما) کے طرزِ عمل سے ظاہر ہوتی ہے. یہ دیکھ کر کہ کفارِ مکہ کی ہر شرط حضور قبول کئے جا رہے ہیں‘ ان پر شدیداضطرابی کیفیت‘طاری تھی.

اس سلسلے کا یہ واقعہ بھی بڑا عجیب ہے کہ جب صلح کی بات مکمل ہو گئی تو حضور نے مسلمانوں سے کہا کہ اب احرام کھول دو اور قربانی یہیں دے دو‘ لیکن کوئی شخص اپنی جگہ سے نہیں ہلا. آپؐ نے دوبارہ یہی بات ارشاد فرمائی‘ لیکن اب بھی کوئی نہیں اٹھ رہا. یہاں تک کہ تیسری مرتبہ فرمانے پر بھی کسی کو جنبش نہیں ہوئی. اس پر حضور کچھ ملول ہو کر اپنے خیمے میں تشریف لے جاتے ہیں اور اپنی زوجہ محترمہ اُمّ المو ٔمنین حضرت اُمّ ِسلمہ رضی اللہ عنہاسے کسی قدر شکوے کے انداز میں کہتے ہیں کہ میں نے تین مرتبہ مسلمانوں سے احرام کھولنے کو کہا لیکن کوئی ایک شخص بھی نہیں اٹھا. حضرت اُمِ سلمہؓ مسلمانوں کی جذباتی حالت کے پیش نظر مشورہ دیتی ہیں کہ حضور! آپ کسی سے کچھ نہ کہئے‘ بس اتنا کیجیے کہ خود اپنا احرام کھول دیجیے اور قربانی دے دیجیے‘ آپ سے آپ معاملہ ٹھیک ہو جائے گا .اور بعینہٖ یہی ہوا. جیسے ہی حضور نے اپنا احرام کھولا اور قربانی دی‘ یوں محسوس ہوا گویا بند کھل گئے اور سب صحابہؓ نے آپؐ کی پیروی کی.