اسی دو سال کے عرصے میں نبی اکرم نے پہلی بار اپنی دعوت کو آس پاس کے علاقوں میں وسعت دینے کے لیے قدم اٹھایا. یہ معاملہ سیرت میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے. جیسا کہ اس سے قبل سورۃ الجمعۃ کے درس کے ضمن میں عرض کیاجا چکا ہے کہ حضور کی بعثت صرف عرب کے لیے نہ تھی بلکہ آپؐ پوری نوعِ انسانی کی جانب رسول بنا کر بھیجے گئے تھے. لیکن دیکھئے کہ دعوت میں جو تدریج نبی اکرم نے ملحوظ رکھی وہ کس قدر منطقی اور معقول ہے. تیرہ برس تک نبی اکرم نے اپنی دعوت و تبلیغ کو صرف مکہ تک محدود رکھا. صرف ایک سفر کا ذکر ملتا ہے ‘یعنی طائف کا سفر. اور انہی دنوں میں ایک اور سفر بھی آپؐ نے کیا اور وہاں سے بھی آپؐ کو بظاہر ناکام ہی لوٹنا پڑا.تیرہ برس کے عرصے میں اہل مکہ نے جب اپنے طرزِ عمل سے ثابت کر دیا کہ اس دعوت کے لیے اب یہاں مزید کوئی امکانات نہیں ہیں تب آپؐ مدینہ تشریف لائے. ہجرتِ مدینہ کے بعد بھی مسلسل سات برس تک آپؐ نے اپنی تمام مساعی کو اندرونِ ملک عرب مرکوز رکھا. حالانکہ آپؐ عرب اور عجم دونوں کی طرف مبعوث ہوئے تھے‘ آپؐ کی بعثت پوری نوعِ انسانی کے لیے تھی.چنانچہ نظری طور پر اس کا امکان تھا کہ جب آپؐ نے مکہ میں اپنی دعوت کا آغاز کیا اُسی وقت آپؐقیصر ِروم کو‘ کسریٰ فارس کو‘ مقوقس شاہِ مصر کو اور نجاشی شاہِ حبشہ کو بھی خطوط لکھ دیتے اور ان کی طرف ایلچی روانہ کر دیتے. لیکن نہیں‘ یہ بات ایک تدریج ہی کے ساتھ ہو سکتی تھی اور اس تدریج ہی میں معنویت پنہاں تھی. چنانچہ ۷ھ میں جب کہ اندرونِ ملک ِعرب نبی اکرم کی قوت کو تسلیم کیا جا چکا تب آپ نے بیرونِ ملک عرب اپنے خطوط اور ایلچی بھیج کر اپنی دعوت کے بین الاقوامی مرحلے کا آغاز فرمایا. 

صلح حدیبیہ درحقیقت اس بات کی علامت 
(symbol) تھی کہ قریش نے نبی اکرم اور مسلمانوں کی اس حیثیت کو تسلیم کر لیا کہ اب آپؐ بھی ملک عرب کی ایک اہم طاقت ہیں.جب اس حد تک جزیرہ نمائے عرب کے اندر ایک فیصلہ کن حیثیت حاصل ہو گئی تب آپؐ نے اپنی دعوت و تبلیغ کا دائرہ وسیع کیا. یہی زمانہ ہے جب کہ آپؐ نے دعوتی خطوط بھیجے. یہی وہ وقت ہے جب آپؐ کے ایلچی آپ کے نامہ ہائے مبارک لے کر ہرقل ِروم کے دربار میں بھی گئے اور شاہِ ایران اور مقوقس مصر کے دربار میں بھی پہنچے. اسی طرح اطراف و جوانب کے جتنے بھی حکمران تھے اُن کی طرف آپؐ نے دعوتی خطوط بھیجے. یوں سمجھئے کہ صلح حدیبیہ کے بعد نبی اکرم کی جدوجہد کے دو رُخ ہو گئے. ایک جانب ابھی اندرونِ ملک یعنی جزیرہ نمائے عرب کے اندر اس انقلاب کی تکمیل کے لیے جدوجہد جاری ہے تو دوسری جانب بیرونِ عرب بین الاقوامی سطح پر پیغامِ محمدی‘ دعوت و تبلیغ اسلام کا آغاز ہو رہا ہے. 

اس سے قبل کہ ہم نبی اکرم کی حیاتِ طیبہ کے ان آخری سالوں کے دوران آپ ؐ کی جدوجہد کے ان دونوں رُخوں کو سمجھنے کی کوشش کریں‘ آئیے کہ پہلے ایک نگاہ ان آیاتِ مبارکہ کے ترجمے پر ڈال لیں جن سے اس گفتگو کا آغاز ہوا تھا ‘یعنی سورۃ الفتح کے آخری رکوع کی آیات.