لَقَدۡ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوۡلَہُ الرُّءۡیَا بِالۡحَقِّ ۚ ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کا خواب سچا کر دکھایا‘‘. حضور نے عمرے کی غرض سے جس سفر کا ارادہ فرمایا تھا اس سے پہلے آپؐ نے ایک خواب دیکھا تھا کہ آپؐ عمرہ ادا فرما رہے ہیں .نبی کا خواب ایک نوع کی وحی ہوتا ہے‘ چنانچہ آپؐ نے اسی کی بنیاد پر سفر اختیار فرمایا. جب صلح حدیبیہ کے بعد یہ طے ہو گیا کہ عمرہ اس سال نہ ہو سکے گا تو بعض حضرات نے یہ خیال کیا کہ اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ وہ خواب جھوٹا ہو گیا! نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ!! حضور نے یہ وضاحت فرما کر اُن کے اس مغالطے کو دُور کیا کہ میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ یہ خواب اسی سال ضرور پورا ہو گا‘ ہم عمرہ ان شاء اللہ ضرور کریں گے‘ یہ خواب غلط نہیں ہے. 

اس سفر کا کم از کم یہ فائدہ تو ہوا کہ مشرکین ِمکہ ّنے مسلمانوں کی حیثیت کو تسلیم کر لیا اور آئندہ سال کے لیے طے ہو گیا کہ مسلمان عمرہ ادا کریں گے اور مشرکین ان کی راہ میں حائل نہیں ہوں گے.چنانچہ اگلے سال کے ذوالقعدہ ۷ھ میں وہ عمرہ ہوا جسے عمرۂ قضاء کہتے ہیں. تو یہاں دراصل اسی بات کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کا خواب سچاکر دکھایا.

لَتَدۡخُلُنَّ الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیۡنَ ۙ مُحَلِّقِیۡنَ رُءُوۡسَکُمۡ وَ مُقَصِّرِیۡنَ ۙ لَا تَخَافُوۡنَ ؕ فَعَلِمَ مَا لَمۡ تَعۡلَمُوۡا فَجَعَلَ مِنۡ دُوۡنِ ذٰلِکَ فَتۡحًا قَرِیۡبًا ﴿۲۷﴾ 

’’تم یقینا داخل ہو گے مسجد حرام میں‘ ان شاء اللہ پورے امن کی حالت میں‘ اپنے سروں کو مونڈتے ہوئے بھی اور بال ترشواتے ہوئے بھی‘ اس حالت میں کہ تمہیں کسی کا خوف نہ ہو گا. تو اللہ جانتا ہے جو کچھ تم نہیں جانتے‘ پس اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے ایک قریبی فتح کا سامان کر دیا.‘‘

یعنی یہ کہ یہ صلح اب تمہارے لیے کامیابیوں کے نئے نئے دروازے کھولنے کا باعث بنے گی. تم بہت جلد اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ صلح کے جس معاہدے کو قریش مکہ‘اپنی فتح سمجھ رہے تھے وہ ان کی شکست تھی. چنانچہ وہ عمومی تاثر کہ محمد ٌرسول اللہ  نے دب کر صلح کی ہے‘ غلط ثابت ہوا اور یہ صلح مسلمانوں کے حق میں ایک فتح عظیم ثابت ہوئی.
اس کے بعد یہاں سورۃ الفتح کے آخری رکوع میں بھی وہی آیۂ مبارکہ وارد ہوئی ہے جو آنحضور کے مقصد ِبعثت کے بیان کے ضمن میں قرآن حکیم کی اہم ترین آیت ہے. (واضح رہے کہ یہ آیت اس سے قبل سورۃ الصف کے درس کے ضمن میں ہمارے مطالعے سے گزر چکی ہے.) اس آیت کو اگر پورے قرآن مجید کا عمود قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا. فرمایا : 
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰۦ وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ ’’وہی ہے (اللہ) جس نے اپنے رسول (محمد  ) کو مبعوث فرمایا الہدیٰ (قرآن حکیم) اور دین ِحق دے کر ‘تاکہ غالب کر دے اسے پورے کے پورے دین (یعنی نظامِ زندگی) پر‘‘ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۲۸﴾ ’’ اورکافی ہے اللہ گواہی دینے والا‘‘. اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ یہ ہو کر رہے گا‘ اور یہ دعوت درحقیقت اپنی اس منزل سے قریب ہوا چاہتی ہے‘ کامیابی اس کے قدم چوما چاہتی ہے.

اگلی آیت میں فرمایا : 
مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ ’’محمد ( )اللہ کے رسول ہیں‘‘. وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ ’’اور وہ لوگ کہ جو اُن کے ساتھ ہیں‘‘. یعنی آپؐ پر ایمان لانے والے آپؐ کے صحابہؓ ‘ آپؐ کے جاں نثار‘ آپؐ کے دست و بازو‘ آپؐ کے اعوان و انصار ‘رضی اللہ عنہم اجمعین. یہ مقام عظمت ِصحابہؓ کے بیان کے ضمن میں بڑی اہمیت کا حامل ہے. فرمایا : وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ’’اور جو لوگ اُن کے ساتھ ہیں وہ کفار کے مقابلے میں بڑے سخت اور آپس میں انتہائی نرم ہیں‘‘. انہیں اس کی پروا نہیں ہوتی کہ مقابلے میں ان کا باپ ہے یا بیٹا. ان کا رشتہ صرف اللہ اور اُس کے رسولؐ سے ہے. ان کی تمام محبتیں اس معیار پر اور اسی ایک بنیاد پر ازسرنو استوار ہو چکی ہیں. جیسا کہ حضور  نے فرمایا :

مَنْ اَحَبَّ لِلّٰہِ وَاَبْغَضَ لِلّٰہِ وَاَعْطٰی لِلّٰہِ وَمَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ (۱

’’ جس نے کسی سے محبت کی تو اللہ کے لیے کی‘ کسی سے بغض اور عداوت رکھی تو اللہ کے لیے رکھی‘ کسی کو کچھ دیا تو اللہ کے لیے دیا اور کسی سے کچھ روکا تو صرف اللہ کے لیے روکا‘ تو وہ ہے کہ جس نے اپنے ایمان کی تکمیل کر لی.‘‘ 
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس معیار پر کاملۃً پورے اُترتے ہیں. چنانچہ غزوۂ بدر میں چشم ِفلک نے وہ نظارہ دیکھا کہ باپ اِدھر ہے اور بیٹا اُدھر‘ ماموں اِدھر ہے تو بھانجا اُدھر‘ بھتیجا اِدھر ہے تو چچا اُدھر. اِدھر حضور  ہیں اور اُدھر عباس بن عبدالمطلب ہیں جو اُس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے. اِدھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں اور اُدھر اُن کے 
(۱سنن ابی داوٗد‘ کتا ب السنۃ‘ باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ . بیٹے عبدالرحمن. اور ایمان لانے کے بعد عبدالرحمن بن ابی بکر(رضی اللہ عنہما) نے جب اپنے والد محترم حضرت ابوبکر صدیق ؓ ‘سے یہ کہا کہ ّابا جان! میدانِ بدر میں آپ میری تلوار کی زد میں آ گئے تھے لیکن میں نے آپ کا لحاظ کیا ‘تو جواب میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بیٹے‘ یہ اس لیے تھا کہ تمہاری جنگ حق کے لیے نہیں تھی‘ خداکی قسم! اگر کہیں تم میری زد میں آ جاتے تو میں بالکل نہ چھوڑتا. اس لیے کہ یہاں معاملہ بالکل بدل چکا ہے. تاہم دوسری طرف وہ آپس میں انتہائی نرم اور مہربان ہیں.ایک دوسرے کے دکھ درد کو بانٹنے والے ‘ ایک دوسرے کے دکھ اور درد کو اپنے باطن میں محسوس کرنے والے‘ اس شان کے حامل جس کی تعبیر علامہ اقبال نے ایک شعر میں اس طرح کی ہے کہ ؎
ہو حلقہ ٔیاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مؤمن! 

اور جس کا نقشہ سورۃالمائدۃ (آیت ۵۴)میں ان الفاظ میں کھینچا گیا ہے: یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ ۙ اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ۫ ’’اللہ ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں‘ اہل ایمان کے حق میں بہت ہی نرم ہیں لیکن کافروں کے لیے بہت سخت ہیں‘‘. کفار کے مقابلے میں ان کے موقف میں کہیں کسی کمزوری کا اظہار نہیں ہوتا. یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا یَخَافُوۡنَ لَوۡمَۃَ لَآئِمٍ ؕ ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں (جان اور مال لگاتے کھپاتے ہیں) اورکسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا کوئی اثر قبول نہیں کرتے.‘‘

اب ہم سورۃ الفتح کی آخری آیت کی طرف رجوع کرتے ہیں. فرمایا : 
تَرٰىہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانًا ۫ ’’ تم انہیں دیکھتے ہو رکوع کرتے اور سجدہ کرتے ہوئے‘ وہ اپنے ربّ کے فضل اور اس کی رضا کے متلاشی ہیں‘‘. ذہن میں رکھئے کہ بندۂ مؤمن کی شخصیت کے یہ دو رُخ ہیں جن کا ذکر قرآن میں متعدد مقامات پر ملتا ہے. ایک رُخ محبت ِ خداوندی ‘ جذبہ ٔعبودیت اور اس کی کیفیات سے متعلق ہے ‘جبکہ دوسرا جہاد وقتال اور ایثار و قربانی سے عبارت ہے. یہاں ان الفاظ میں پہلے رُخ کا بیان ہے کہ : تَرٰىہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانًا ۫ ان کی زندگی کا یہ نقشہ تمہارے سامنے ہے کہ وہ اللہ کی جناب میں رکوع اور سجود کرنے والے ہیں‘ وہ اپنے ربّ کے فضل کے طالب اور اس کی رضا کے جویا ہیں. ان کا نصب العین بس رضائے الٰہی کا حصول ہے.

سِیۡمَاہُمۡ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ ؕ ’’ ان کی نشانی ہے ان کے چہروں میں (ان کی پیشانیوں میں) سجدوں کے اثرات سے‘‘. ذٰلِکَ مَثَلُہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ ۚۖۛ وَ مَثَلُہُمۡ فِی الۡاِنۡجِیۡلِ ۚ۟ۛ ’’یہ ان کی مثال ہے تورات میں اور ان کی یہ تمثیل ہے انجیل میں بھی‘‘. تورات اور انجیل کے بارے میں یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ نبی اکرم کے بارے میں پیشین گوئیاں ان کتابوں میں موجود تھیں جن میں سے بہت سی کھرچ دی گئیں‘ نام و نشان مٹانے کی ہر ممکن سعی کی گئی‘ پھر بھی کہیں کہیں کوئی کوئی پیشین گوئی باقی رہ گئی. قرآن مجید کے یہ الفاظ ثابت کرتے ہیں کہ صرف حضور کی نہیں بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کی علامات کا بیان بھی تورات اور انجیل میں تھا‘ ان کی شخصیتوں کے نمایاں اوصاف اور خدوخال بھی ان میں درج تھے. وہ مشہور واقعہ اس بات کی تائید کرتا ہے جو بیت المقدس کی فتح کے ضمن میں تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے کہ جب مسلمان افواج یروشلم کا محاصرہ کیے ہوئے تھیں اور محاصرہ بھی بہت طول پکڑ گیا تو وہاں محصور عیسائی رہنماؤں نے کہا کہ ایک درویش بادشاہ کی علامات ہماری کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں جس کے ہاتھوں یہ شہر فتح ہو گا. بعد میں ثابت ہوا کہ وہ درویش بادشاہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے. اس لیے کہ وہ جب بیت المقدس تشریف لائے تو وہاں کے لوگوں نے اپنی کتابوں سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حلیہ ملانے کے بعد شہر کے دروازے مسلمانوں کے لیے یہ کہتے ہوئے کھول دیے کہ یہی وہ شخص ہے جس کی علامات ہماری کتابوں میں درج ہیں!

آگے فرمایا : 
کَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطۡـَٔہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰی عَلٰی سُوۡقِہٖ ’’ اُس کھیتی کی مانند جو پہلے اپنی سوئی نکالتی ہے‘ پھر اس کی کمر کو مضبوط کرتی ہے‘ پھر ذرا موٹی ہوتی ہے‘ پھر کھڑی ہو جاتی ہے اپنی نال پر‘‘ یُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الۡکُفَّارَ ؕ ’’ کاشت کار کو وہ بڑی بھلی لگتی ہے (اُس کا دل اس کھیتی کو دیکھ کر باغ باغ ہوجاتا ہے) تا کہ ان کے ذریعے سے کفار کا دل جلائے ‘‘. یہاں کھیتی سے مراد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت ہے. یہ پودا جو شروع میں بڑا نرم و نازک اور کمزور تھا‘ اب ایک تناور درخت کی صورت اختیار کر چکا ہے. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا کاشت کار کون ہے؟ خود اللہ تبارک و تعالیٰ جس کی یہ کھیتی ہے‘ یا پھر وہ ذاتِ گرامی جس نے اپنے خونِ جگر سے اس کھیتی کو سینچا ہے! آپؐ کا دل اس شاندار فصل کو دیکھ کر باغ با غ ہو جاتا ہے. اور وہ کفار و منافقین جن کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بغض تھا‘ ان کی کامیابیوں پر اپنے دل میں جلن اور گھٹن محسوس کرتے ہیں. ٭ 

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿٪۲۹
’’ ان لوگوں میں سے جو ایمان اور عمل صالح کے معیار پر پورا اتریں‘ اللہ نے مغفرت اور اجر ِعظیم کا وعدہ فرمایا ہے‘‘. دنیا میں بھی فتح و کامرانی ان کے قدم چوم رہی ہے اور آخرت کے اعتبار سے بھی وہ کامیاب و کامران ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان صاحب ِایمان اور نیکوکار لوگوں سے مغفرت اور اجر ِعظیم کا وعدہ کر رکھا ہے.