اس کے کچھ ہی عرصے بعد رمضان المبارک ۸ھ میں آپؐ دس ہزار صحابہؓ کی معیت میں مکہ مکرمہ کی جانب پیش قدمی فرماتے ہیں. اب کسی میں دم نہیں تھا کہ مسلمانوں کی قوت کے سامنے ٹھہر سکتا. بعض زیادہ سرپھرے اور جذباتی لوگوں کی طرف سے کچھ تھوڑی سی مزاحمت ہوئی‘ صرف چند جانیں تلف ہوئیں اور محمد ٌرسول اللہ فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوگئے . اس موقع پر انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت و کردار کا وہ مشترک پہلو سامنے آتا ہے کہ جس کی اس مقدس جماعت سے باہر کوئی دوسری مثال پیش کرنا ناممکن ہے. وہ خون کے پیاسے کہ جن کے ظلم و ستم کے باعث آٹھ ہی سال پہلے نبی اکرم اور آپؐ کے جاں نثار ساتھی اپنی آبائی سرزمین مکہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے اور بمشکل اپنی جان سلامت لے جا سکے تھے‘ وہی لوگ مغلوبیت کی حالت میں آپؐکے سامنے تھے اور پورے طور پر آپؐ کے رحم و کرم پر تھے. لیکن بجائے اس کے کہ انہیں کوئی لعنت ملامت اور سرزنش کی جاتی‘ لسانِ نبوت سے یہ الفاظ جاری ہوتے ہیں کہ میں آج تم سے وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف ؑنے اپنے ان بھائیوں سے کہی تھی جنہوں نے ان کے ساتھ دشمنی والا معاملہ کیا تھا‘ یعنی لَا تَثۡرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَ ؕ ’’ آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں‘‘. اِذْھَبُوْا فَاَنْتُمُ الطُّلَقَا ءُ ’’جاؤ! تم سب کے سب آزاد ہو.‘‘