اس کے بعد صرف ایک مزاحمت ہوئی‘ اور و ہ ہوازن اور ثقیف کے لوگوں کی طرف سے تھی. یہ قبیلے بڑے زوردار تھے. فتح مکہ کے بعد یہ اہل ِکفر اور شرک کی طرف سے گویا آخری کوشش تھی. جب آنحضورﷺ کو یہ اطلاع ملی کہ اِدھر جنگ کے لیے تیاریاں ہو رہی ہیں‘ جمعیت فراہم کی جا رہی ہے‘ تو آپؐ نے جوابی اقدام کے طور پر اگلے ہی مہینے شوال ۸ھ میں ان کی سرکوبی کے لیے لشکر کشی کی. اس مہم کو غزوۂ حنین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے. بارہ ہزار کا لشکر آپؐ کے ہمراہ تھا. ان میں دس ہزار وہ تھے کہ جو مدینہ سے حضورﷺ کے ساتھ فتح مکہ کے وقت آئے تھے اور مزید دو ہزار مکہ سے شریک ہوئے جن میں کچھ وہ بھی تھے جو فتح مکہ کے بعد ایمان لے آئے تھے اور کچھ وہ بھی تھے جو ایمان تو نہیں لائے تھے لیکن اب ان کی حیثیت حلیفوں کی تھی. بارہ ہزار کا لشکر لے کرآنحضورﷺ مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئے اور وادیٔ حنین میں وہ واقعہ پیش آیا جس کا ذکر سورۂ توبہ میں سرزنش کے انداز میں آیا ہے:
وَّ یَوۡمَ حُنَیۡنٍ ۙ اِذۡ اَعۡجَبَتۡکُمۡ کَثۡرَتُکُمۡ فَلَمۡ تُغۡنِ عَنۡکُمۡ شَیۡئًا وَّ ضَاقَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡاَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ ... (آیت ۲۵)
’’ اور یاد کرو حنین کے دن کو جبکہ تمہیں اپنی کثرت پر کچھ ناز ہو گیا تھا تو وہ کثرت تمہارے کسی کام نہ آ سکی اور زمین اپنی تمام تر وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی‘‘.
اندازہ یہ ہوتا ہے کہ بعض حضرات کے ذہن میں یہ خیال آ گیا ہو گا کہ ایک وقت تھا کہ ہم تین سو تیرہ تھے تب ہم نے مار نہ کھائی‘ تو آج تو بارہ ہزار ہیں‘ آج ہمیں کون شکست دے گا…!! اللہ تعالیٰ نے فوراً گرفت فرمائی اور مسلمانوں کو سبق سکھا دیا. ہوازن کے لوگ بڑے ماہر تیر انداز تھے. وہ گھاٹیوں میں چھپے ہوئے تھے. مسلمان جیسے ہی آگے بڑھے اُدھر سے تیروں کی زبردست بوچھاڑ شروع ہو گئی. ایسی بھگدڑ مچی کہ تقریباً پورا لشکر تتر بتر ہو گیا. بعض روایات کے مطابق گنتی کے چند صحابہ آنحضورﷺ کے ساتھ رہ گئے تھے.لیکن بعض روایات اور غالباً صحیح تر روایات کی رو سے چند سو صحابہ آپؐ کے ساتھ رہے. بارہ ہزار میں سے محض چند سو افراد کا باقی رہ جانا بھی بہرحال ایک بہت بڑی بھگدڑ سے کم نہیں!
اُس وقت نبی اکرمﷺ کی ذاتی شجاعت کا ایک عجیب مظاہرہ سامنے آیا.آپ سواری سے اترے‘ علَم اپنے ہاتھ میں لیا اور یہ رجز پڑھتے ہوئے آگے بڑھے : اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبَ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ’’جان لو کہ میں نبی ہوں اور اس میں کوئی جھوٹ نہیں‘ اور جان لو کہ میں عبد المطلب کی اولاد میں سے ہوں‘‘.یعنی میرے ساتھ بار ہ ہزار کا لشکر ہو تب بھی نبی ہوں اور خواہ کوئی میرا ساتھ دینے والا نہ ہو تب بھی نبی ہوں. میری نبوت کا دار و مدار میرے ماننے والوں کی قلت و کثرت پر نہیں ہے‘ اور یہ کہ میں عبدالمطلب کا بیٹا میدان میں موجود ہوں. پھر آپﷺ نے صحابہ کو پکارا : ’’یَا اَصْحَابَ الشَّجَرَۃِ‘‘ اے وہ لوگوجنہوں نے میرے ہاتھ پر ایک درخت کے نیچے بیعت کی تھی‘ آؤ میرے جھنڈے تلے جمع ہو جاؤ! اسی طرح مختلف لوگوں کو نام لے کر پکارا. حضورﷺ کی پکار پر لوگ جمع ہوئے اور آخر کار اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرما دی. یہ غزوۂ حنین گویا علامت بن گیا اس بات کی کہ اندرونِ ملک عرب اب کوئی ایسی طاقت موجود نہیں رہی جو خم ٹھونک کر مسلمانوں کے مقابلے میں آ سکے. چنانچہ اس طرح جزیرہ نمائے عرب پر دین ِحق کا غلبہ مکمل ہو گیا.