سورۂ براء ۃ کی یہ ابتدائی آیات درحقیقت اس بات کا اعلانِ عام ہے کہ اب جزیرہ نمائے عرب میں کفر اور شرک کے لیے کوئی گنجائش نہیں. اب تو صورت یہ ہے کہ: جَآءَ الۡحَقُّ وَ زَہَقَ الۡبَاطِلُ ’’ حق آ گیا اور باطل نیست و نابود ہو چکاہے‘‘. چنانچہ اعلان کر دیا گیا کہ اَشہر حُرم کے ختم ہوتے ہی مشرکین کا قتل عام شروع کر دیا جائے : فَاِذَا انۡسَلَخَ الۡاَشۡہُرُ الۡحُرُمُ فَاقۡتُلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡہُمۡ ... (آیت۵)’’پس جب محترم مہینے ختم ہو جائیں تو قتل کرو مشرکین کو جہاں بھی انہیں پاؤ…!‘‘ اب اس جزیرہ نمائے عرب میں کفر اور شرک کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے. صرف اہل کتاب کو یہ ایک اختیار دیا گیا کہ وہ اگر چاہیں تو چھوٹے ہو کر رہ سکتے ہیں: ...یُعۡطُوا الۡجِزۡیَۃَ عَنۡ ‌یَّدٍ وَّ ہُمۡ صٰغِرُوۡنَ ﴿٪۲۹﴾ ’’… وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں اور چھوٹے ہو کر رہیں‘‘. یعنی وہ اگر چاہیں تو اپنے مذہب پر عمل پیرا رہیں‘ اپنے نجی معاملات میں وہ نصرانیت یا یہودیت پر برقرار رہنا چاہیں تو رہیں‘ لیکن اب یہاں اللہ کا دین غالب ہو گا اور انہیں اس کی بالادستی کو قبول کرنا ہو گا.مشرکین عرب یعنی بنی اسماعیل کو یہ رعایت نہیں دی گئی‘ اس لیے کہ حضور ان ہی میں سے تھے. آپؐ کی اوّلین بعثت ’’ اُمِّیّٖنَ ‘‘ ہی میں تھی. انہی کی زبان بولتے ہوئے آ پؐ تشریف لائے‘ آپؐ اسی قوم میں سے تھے. گویا مشرکین عرب پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتمامِ حجت بدرجۂ آخر اور بتمام و کمال ہو چکا‘ لہذا ان کے لیے اب کوئی رعایت اور کوئی گنجائش نہیں !!

ہجرت کے دسویں سال نبی اکرم نے بنفس ِنفیس فریضہ ٔ حج ادا فرمایا اور ہجرت کے بعد یہی آپؐ کا پہلا اور آخری حج ہے. اس میں آپؐ نے وہ خطبہ ارشاد فرمایا جوتاریخ کے اوراق میں نمایاں طور پر ثبت ہے. عرب کے کونے کونے سے آئے ہوئے سوا لاکھ سے زائد افراد میدانِ عرفات میں جمع تھے. گویا آپ کی ۲۳ سالہ کمر توڑ دینے والی مساعی کا حاصل آپؐ کے سامنے گوش بر آواز تھا . اس موقع پر آپؐ نے حاضرین سے یہ گواہی بھی لے لی کہ میں نے حق تبلیغ ادا کر دیا‘ تبلیغ کا جو بارِ گراں مجھ پر ڈالا گیا تھا میں نے اس کا حق ادا کر دیا. پھر اللہ تعالیٰ سے بھی یہ عرض کر کے کہ 
’’اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ!‘‘ (اے اللہ!تو بھی گواہ رہ کہ میں نے تبلیغ کا حق ادا کر دیا!) آپ نے اطمینان کا سانس لیا .گویا اس عظیم ذمہ داری کا بوجھ آپؐ کے کاندھوں سے اتر گیا.

سورۃ الفتح کی آخری آیات کے درس میں یہ مضمون ہمارے مطالعے سے گزر چکاہے کہ : 
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰۦ وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۲۸﴾ 

آیت کے آخری الفاظ کہ ’’ اور کافی ہے اللہ بطورِ گواہ‘‘ کا ربط جڑ جاتا ہے حضور کے اس فرمان سے کہ ’’اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ‘‘ کہ اے اللہ ‘ تو گواہ رہ کہ اس جزیرہ نمائے عرب پر تیرے دین کا غلبہ مکمل ہو گیا!