یہ تو معاملہ تھا اندرونِ ملک عرب کا‘ اب آئیے اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ بیرونِ عرب صورتِ حال کیا تھی. جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے‘ آنحضور دو بعثتوں کے ساتھ مبعوث ہوئے. آپؐ کی بعثت ِخصوصی اہل ِ عرب کی طرف تھی اور بعثت عمومی پوری نوعِ انسانی کی طرف. (اِلٰی کَافَّۃِ النَّاسِ). اس بعثت ِعمومی کے ضمن میں بھی نبی اکرم نے اپنے فرائض کی ادائیگی کا آغاز اپنی حیاتِ طیبہ میں فرما دیا تھا اور پھر اُن فرائض کو اُمت کے حوالے کر کے آپؐ اس دنیا سے تشریف لے گئے‘ جبکہ بعثت ِ خصوصی کی ذمہ داری کُل کی کُل آپؐ نے بنفس نفیس ادا فرمائی. چنانچہ حجۃ الوداع کے موقع پر اس کی تکمیل کا اعلان بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہو گیا:

اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ (المائدۃ:۳

بعثت عمومی کے ضمن میں آغازِ کار کے طور پر آنحضور نے جو اقدامات کیے ان کا ایک خاکہ ذہن میں جما لیجئے ! صلح حدیبیہ ۶ ھ میں ہوئی‘ اور اس کے بعد آپؐ نے آس پاس کے حکمرانوں کی طرف دعوتی خطوط لکھے. حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ حضور کا نامہ ٔمبارک لے کر خسرو پرویز کے دربار میں پہنچے. اس بدبخت نے آپؐ کے نامۂ مبارک کو چاک کر دیا اور انتہائی گستاخی کی روش اختیار کی. وہ تو یہ سمجھتا تھا کہ عرب کا سارا علاقہ اس کی سلطنت میں شامل ہے اور عرب میں رہنے والے سب اس کی رعیت ہیں. چنانچہ اس نے یمن کے ایرانی گورنر کو حکم بھیجا کہ (معاذ اللہ‘ نقل کفر‘ کفر نباشد) یہ کون گستاخ شخص ہے جس نے مجھے خط لکھنے کی جرأت کی ہے‘ اس کو فوراً گرفتار کر کے میرے دربار میں حاضر کرو! … وہاں سے دو اشخاص خسرو پرویز کے حکم کی تعمیل میں آپؐ کے پاس مدینہ پہنچے کہ ہمارے بادشاہ نے آپ کو طلب فرمایا ہے. حضور نے فرمایا میں تمہاری بات کا جواب کل دوں گا. اگلی صبح آپؐ نے ان دونوں کو بلا کر فرمایا کہ جاؤ تمہارا ربّ (بادشاہ) قتل ہو چکا ہے. اور فی الواقع اسی رات وہ اپنے بیٹے کے ہاتھوں قتل ہوا تھا. آپؐ کے یہ الفاظ بھی تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں کہ خسرو پرویز نے میرا خط چاک نہیں کیا ‘اپنی سلطنت کے ٹکڑے اڑا دیے ہیں. اور وہ سلطنت واقعتا نسیاً منسیا ہو کر رہی.

قیصر ِروم ہرقل کے دربار میں آنحضور کا نامہ ٔمبارک لے کر حضرت دِحیہ کلبی رضی اللہ عنہ پہنچے. وہ شخص اہل کتاب میں سے تھا‘ نصرانی تھا‘ صاحب ِ علم تھا. اس کو یہ پہچاننے میں دیر نہیں لگی کہ یہ وہی رسول ہیں جن کے ہم منتظر تھے. لیکن حکومت اور سلطنت کی بیڑیاں اس کے پاؤں میں پڑی ہوئی تھیں لہذا وہ ایمان لانے سے محروم رہا. تاہم اس نے بھرپور کوشش کی کہ پوری سلطنت اسی طرح اجتماعی طور پر اپنا مذہب تبدیل کر کے اسلام لے آئے جیسے اس سے قبل ایک بار اپنے شہنشاہ کی پیروی میں پوری سلطنت نے عیسائیت کو اختیار کر لیا تھا. چنانچہ اُس نے دربار لگایا. ان دنوں بیت المقدس کے نزدیک غزہ شہر میں حضرت ابو سفیان‘ جو ابھی تک ایمان نہیں لائے تھے‘ تجارتی قافلہ لے کر پہنچے ہوئے تھے. انہیں قیصر روم کے دربار میں طلب کیا گیا. بھرے دربار میں جو گفتگو ہوئی اس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قیصر چاہتا کیا تھا! ہرقل نے اپنے سوالات کے ذریعے یہ کوشش کی کہ ان کے جواب سن کر درباریوں پر یہ بات واضح ہوتی چلی جائے کہ آپؐ نبی برحق ہیں‘ آپ ہی رسولِ آخر الزماں ہیں. (یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ حضرت ابوسفیان نے جو اُس وقت مشرکین کے قافلے کے سردار تھے‘ ہر سوال کے جواب میں صحیح بات بتائی اور غلط بیانی سے گریز کیا) لیکن اس کے درباریوں اور خاص طور پر بطارقہ یعنی عیسائی پادریوں کا ردّعمل نہایت مخالفانہ تھا. طیش کے عالم میں ان کے 
نتھنوں میں سے خرخراہٹیں نکل رہی تھیں. ہرقل نے محسوس کیا کہ اس طرح تو اس کا تخت ِ اقتدار ڈول جائے گا‘ لہذا ایمان سے محروم رہا.

اسی طرح مصر کا حکمران مقوقس بھی عیسائی تھا. اس کے پاس جب آپ کا نامۂ مبارک پہنچا تو اُسے بھی پہچاننے میں دیر نہیں لگی. اس نے جان لیا کہ آپؐ نبی برحق ہیں. اس نے آپؐ کے ایلچی کا احترام کیا‘کچھ تحفے تحائف بھی حضور کی خدمت میں بھیجے. لیکن ایک شخص شرحبیل بن عمرو نے جو رؤساء شام میں سے تھا اور قیصر ِروم کے زیر اثر سمجھا جاتا تھا ‘ گستاخی کی انتہا کر دی. اس کی جانب حضرت حارث بن عمیر رضی اللہ عنہ حضور کے ایلچی کے طور پر آپؐ کا نامہ ٔمبارک لے کر گئے. شرحبیل بن عمرو رضی اللہ عنہ نے انہیں شہید کر دیا. یہ واقعہ مملکت روم کے ساتھ اسلامی ریاست کے تصادم کی بنیاد بن گیا.