سفیر کا قتل بین الاقوامی اخلاقیات میں ایک بہت بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے. نبی اکرم نے ان کے قصاص کے لیے تین ہزار کا ایک لشکر تیار کیا اور اسے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے زیر کمان شام کی طرف روانہ کیا. یہاں سے گویا اب بیرونِ عرب تصادم کا آغاز ہو گیا. آنحضور نے پیشگی طور پر یہ ہدایت دے دی تھی کہ اگر حضرت زیدؓ شہید ہو جائیں تو پھر کمان حضرت جعفر طیارؓ کے ہاتھ میں ہو گی‘وہ بھی اگر شہید ہو جائیں تو پھر عبداللہ بن رواحہؓ لشکر کے امیر ہوں گے .ادھر سے شرحبیل بن عمرو ایک لاکھ کی فوج کے ساتھ مقابلے پر آ یا. یہاں اب مشورہ ہوا‘ تین ہزار کا ایک لاکھ کے ساتھ مقابلہ ہے‘ جنگی نقطہ نگاہ سے کوئی نسبت اور تناسب نہیں بنتا. آیالوٹ جائیں یا آگے بڑھیں اور ٹکرا جائیں ……!! مسلمانوں کا ذوقِ شہادت اور جذبہ ٔجہاد غالب آیا. فیصلہ ہوا کہ نہیں‘ فتح و شکست کے بارے میں سوچنا ہمارا کام نہیں‘ ہمیں تو اپنا فرض ادا کرنا ہے. چنانچہ مقابلہ ہوا. یکے بعد دیگرے حضرت زید بن حارثہ‘ حضرت جعفر طیار اور حضرت عبداللہ بن رواحہ تینوں شہید ہو گئے‘ رضی اللہ تعالیٰ عنہم و ارضاہم اجمعین. اور پھر کمان ہاتھ میں لی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے‘ اور ایک نہایت خونریز جنگ کے بعد جیسے بھی بن پڑا‘ بڑی حکمت اور مہارت کے ساتھ اس لشکر کو دشمن کے نرغے سے نکال کر لے آئے. جب یہ لشکر مدینہ واپس پہنچا تو بعض لوگوں نے اس خیال سے کہ یہ بھگوڑے ہیں اور جان بچا کر میدانِ جنگ سے بھاگ آئے ہیں‘ لشکر پر باقاعدہ خاک پھینکی. نبی اکرم نے اس سے منع فرمایا ‘بلکہ اس لشکر کے دفاع میں سورۃ الانفال (آیت ۱۶) ہی کے الفاظ کا حوالہ دیا کہ یہ بھاگ کر آنے والے نہیں ہیں ‘بلکہ ان کا یہ عمل تو مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوۡ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ (یعنی جنگی حکمت ِعملی کے تحت دوسری فوج سے جا ملنے کے لیے پیچھے ہٹنا) کے زمرے میں آئے گا‘ اس لیے کہ یہ لوگ اپنی جماعت کی طرف لوٹ کر آئے ہیں تا کہ ایک نئی تیاری کے ساتھ اور پورے اہتمام کے ساتھ از سر ِنو حملہ کیا جاسکے.