اس کے بعد نبی اکرم ﷺ نے نفیر ِعام کا اعلان فرما دیا. اعلانِ عام کر دیا گیا کہ اب وقت ہے کہ سب لوگ اللہ کے راستے میں نکلیں. اللہ کے دین پر ایک کٹھن مرحلہ آگیا ہے‘ وقت کی عظیم ترین قو ت سلطنت ِ روما کے ساتھ تصادم درپیش ہے. آج کی اصطلاح میں ہم یوں کہیں گے کہ سپرپاورز میں سے ایک کے ساتھ تصادم ہو رہا ہے. لہذا ہر شخص اللہ کی راہ میں نکلے. سیرت میں یہ پہلا موقع تھا کہ اس طرح نفیر ِعام کی گئی. یہ ہجرت کا نواں سال تھا. سخت گرمی کا موسم تھا. تبوک کی جانب پیش قدمی کرنی تھی جو مدینہ سے چھ سات سو میل کی مسافت پر تھا. اس پر مستزاد یہ کہ قحط کا سا عالم تھا اور اب کھجور کی فصل پک کر تیار تھی. اندیشہ تھا کہ اگر سب لوگ یہاں سے چلے گئے تو ان فصلوں کو اتارنے والا کوئی نہ ہو گا اور یہ برباد ہو جائیں گی. پھر یہ کہ ٹکراؤ کس سے ہے؟ سلطنت روما سے! اب تک تو مسلمانوں کا مقابلہ اپنے ہم پلہ عربوں کے ساتھ تھا. مسلمان خود عرب تھے اور ان کے مقابلے میں بھی عرب قو ت تھی. زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ افواج کی تعداد اور سامان حرب کے لحاظ سے ایک اور دس کی نسبت تھی. لیکن یہ کہ عرب کا تصادم سلطنت ِ روما کے ساتھ …! کوئی نسبت تناسب بنتا ہی نہیں. یہ وہ وقت ہے کہ جب نبی اکرمﷺ کی حیاتِ طیبہ کے دوران اہل ایمان کے ایمان کی آخری اور سب سے کڑی آزمائش ہوئی. یہی وجہ ہے کہ سورۂ توبہ میں تفصیل کے ساتھ اس سفر ِتبوک میں پیش آنے والے حالات و واقعات کا ذکر بھی ہے اور ان پر ایک مفصل تبصرہ بھی وارد ہوا ہے.
سیرتِ طیبہ میں اس غزوہ کو جہاد و قتال فی سبیل اللہ کا نقطہ ٔ عروج قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا. تیس ہزار کا لشکر لے کر محمد ٌرسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے اور ایک نہایت طویل اور پُر صعوبت سفر طے کر کے تبوک پہنچے. (سیرت کی کتابوں میں اس مہم کو ’’جیش العُسرۃ‘‘ یعنی ’’نہایت سختی اور تنگی کالشکر ‘‘کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے) تبوک میں آپﷺ نے بیس دن قیام فرمایا. ہرقل قیصر روم وہاں سے کچھ دُور زیادہ فاصلے پر نہیں تھا‘قریب ہی موجود تھا. لاکھوں کی تربیت یافتہ افواج (standing armies) اُس کے ساتھ تھیں. لیکن وہ مقابلے کی ہمت نہ کر سکا‘ بلکہ طرح دے گیا‘ مقابلے پر آنے سے گریز کیا. یہ ایک سوالیہ نشان ہے مؤرخین کے سامنے کہ اس کی وجہ کیا ہوئی؟ نبی اکرمﷺ بیس دن تک تبوک میں مقیم رہے. پورے علاقے پر آپؐ کی دھاک بیٹھ گئی. مسلمانوں کا رعب اور دبدبہ قائم ہو گیا. آس پاس کے رؤساء نے آ کر اطاعت قبول کی اور اس طرح گویا بیرونِ ملک عرب اسلام کی دعوت اور اس کے پھیلاؤ کا نقطۂ آغاز ہو گیا‘ لیکن ہرقل سامنے نہیں آیا. اس کی واحد وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ وہ جانتا تھا کہ مقابلے پر اللہ کے رسولؐ ہیں ‘ ان کے ساتھ ٹکرانے کا نتیجہ اس پر خوب عیاں تھا‘ لہذا وہ کنی ّکترا گیا اور مقابلے میں نہ آیا.
وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العلمین!