ایک ضروری وضاحت بابت مسئلہ ’’وحدت الوجود‘‘

اس کتاب کے بالکل آغاز میں محترم ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ علیہ نے ’’فلسفہ ٔوجود‘‘ اور اس کی مختلف تعبیرات کے ذیل میں ربط الحادث بالقدیم کے حوالے سے جو بحث کی ہے اس کے بارے میں چند معروضات پیش خدمت ہیں. بیان ربط الحادث بالقدیم کا ہو اور وہ شیخ ابن عربی کے نظریہ ٔوحدت الوجود کے ذکر سے خالی رہے یہ ممکن نہیں. ڈاکٹر صاحبؒ نے اس کا ذکر کیوں کیا… وہ خود لکھتے ہیں:

’’یہ بات خاص طور پر یہ نوٹ کیجیے کہ فلسفۂ وجود فلسفے کا دقیق ترین مسئلہ ہے‘ اور اس کے بارے میں مجھے قطعاً یہ دعویٰ نہیں ہے کہ میں فلسفے کا طالب علم ہوں‘ نہ یہ میرا مقام ہے کہ میں اس پر
authoritative انداز میں کوئی گفتگو کر سکوں‘لیکن اس کے باوجودمَیں اس پر کیوں گفتگو کرتا ہوں‘ اسے سمجھ لیجیے. اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اکابر و اسلاف میں سے بہت سے حضرات وحدت الوجود کے قائل ہیں اور عام اہل مذہب کی جو ذہنی سطح ہے وہ وحدت الوجود کو کفر سمجھتے ہیں.‘‘ (ص ۴۹۵۰)
مزید برآں وہ لکھتے ہیں:

’’اس کے باوجود میں کہتا ہوں کہ کسی کو ابن عربی سے سوءِ ظن ہو‘ کوئی انہیں مرتد سمجھے یا جو چاہے کہے اس سے کوئی بہت بڑا فرق واقع نہیں ہوتا‘ لیکن شاہ ولی اللہؒ کو اگر کوئی یہ سمجھے کہ وہ مشرک تھے یا مرتد تھے یا 
ضال اور مُضِل تھے تو یہ بات بڑی تشویش کی ہے. ان کے علاوہ ہماری اور بہت بڑی بڑی شخصیات وحدت الوجود کی قائل ہیں. اس حوالے سے میں اپنے درس میں کوشش کیا کرتا ہوں کہ کم سے کم اس درجے تک بات واضح ہو جائے کہ ان حضرات سے سو ءِ ظن نہ رہے. کوئی فلسفہ ہے‘ اس سے آپ اختلاف کریں‘ آپ کو بڑے سے بڑے انسان سے اختلاف کرنے کا حق حاصل ہے‘ لیکن یہ سمجھنا کہ یہ حضرات گمراہی اور کفر میں مبتلا ہو گئے (معاذ اللہ)بہت بڑی غلطی ہے. اس طرح تو پھر ہمارے لیے اپنے اسلاف میں کوئی سہارا نہیں رہے گا. اس حوالے سے میں اس موضوع پر گفتگوکیا کرتا ہوں. ‘‘ (ص ۵۰)

گویا ڈاکٹر صاحبؒ کا مقصد تو واضح اور نیک تھا … لیکن کیا کیا جائے کہ اس بیان سے فتنہ گروں کو موقع مل گیا اور انہوں نے ڈاکٹر صاحبؒ کے بیان سے کھینچ تان کر ایسے ایسے مطالب اور نکات نکالنے شروع کر دیے کہ عقلیں دنگ رہ گئیں. جس بات کو ڈاکٹر صاحبؒ نے فلسفے کے ایک مسئلے کے طو رپر بیان کیا اسے ان کا ایمانی عقیدہ قرار دیا گیا. حالانکہ تحریر میں جابجا ڈاکٹر صاحبؒ اظہار کرتے نظر آ رہے ہیں کہ ’’اس فلسفے کو جس کا جی چاہے قبول کرے اور جو ردّ کرنا چاہے ردّ کر دے. اس کے نہ ماننے سے کسی اعتبار سے بھی دین میں کوئی کمی یانقص واقع نہیں ہوتا. مزید برآں وہ بارہا 
علیٰ رؤ س الاشہاد اس بات کا اعلان کرتے رہے کہ وحدت الوجود کے اثبات کے حوالے سے ان کی سوچ بالکل نجی اور ذاتی ہے‘ ان کے دینی یا تنظیمی و تحریکی فکر سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے. اس واضح بیان اور دو ٹوک وضاحت کے بعد بھی اگر کوئی اسے ڈاکٹر صاحب کا ’’عقیدہ‘‘ متصور کرے اور اس کے ذریعے ڈاکٹر صاحبؒ کی طرف شرک کی نسبت کرے تو یقینا یہ افسوسناک بات ہے.

بحث کی نزاکت کے پیش نظر اس نئے ایڈیشن میں ایسے مقامات پر جہاں سے ناقدین نے فتنہ سامانی کی کوشش کی ہے ‘ توضیحی نکات فٹ نوٹ میں شامل کر دیے گئے ہیں‘ جن سے بیان کا اصل مدعا سمجھنے میں سہولت ہو سکتی ہے اور ناقدین کی طرف سے پیدا کی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوتا ہے. 

ناشر