یہ بات تو متفق علیہ ہے کہ قرآن حکیم کی سورتیں تعداد میں ۱۱۴ ہیں.یہ ۱۱۴ سورتیں دو طرح کے گروپس میں تقسیم کی گئی ہیں. ایک تقسیم تو وہ ہے جو قدیم ہے‘ دورِ نبویؐ اور دورِ صحابہؓ سے اس تقسیم کاذکر موجود ہے. یہ قرآن مجید کی سورتوں کی سات منزلوں یا سات احزاب میں تقسیم ہے‘ جبکہ مختلف گروپس میں قرآن حکیم کی سورتوں کی ایک تقسیم اور ہے جس کی طرف قرآن میں تدبر کرنے والے بعض حضرات کی توجہ ماضی قریب ہی میں منعطف ہوئی ہے‘ اور وہ یہ ہے کہ مکی اور مدنی سورتوں کے بھی قرآن مجید میں سات گروپس ہیں. یہ تو سب کو معلوم ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ قرآن حکیم میں پہلے تمام مکی سورتیں اور پھر تمام مدنی سورتیں آ گئی ہوں‘ یا اس کے برعکس پہلے تمام مدنی سورتوں کو جمع کر لیا گیا ہو اور پھر تمام مکی سورتوں کو جمع کر لیا گیا ہو. اگرچہ بعض اعتبارات سے یہ ترتیب تو نظر آتی ہے کہ طویل سورتیں پہلے ہیں اور چھوٹی سورتیں بعد میں ہیں‘ لیکن اس میں بھی کوئی معین قاعدہ کلیہ نہیں ہے ‘بلکہ مختلف مقامات پر فرق و تفاوت نظر آتا ہے. تو اب یہ مکی اور مدنی سورتوں کے جو مختلف گروپس بنتے ہیں ان پر جب غور کیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ بھی تعداد میں سات ہی ہیں.
جہاں تک سات منزلوں یا سات احزاب کا تعلق ہے وہ گویا حجم کے اعتبار سے پورے قرآن حکیم کو سات حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے کہ جو شخص ہر ہفتے میں ختم قرآن کر لینا چاہتا ہو‘ جیسا کہ بہت سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ اس کا التزام کرتے تھے ‘ تو سہولت رہے کہ ہر روز اگر ایک حزب یا ایک منزل کی تلاوت ہوتی رہے تو ایک ہفتے میں قرآن مجید ختم ہو جائے . اس تقسیم میں چونکہ سورتوں کو پورا پورا شامل کیا گیا ہے اس لیے یہ سات منزلیں حجم میں بالکل مساوی نہیں ہیں . پہلی منزل سوا پانچ پاروں کی ہے‘ باقی ہر منزل کم و بیش چار پاروں پر مشتمل ہے. اس تقسیم میں چونکہ سورتوں کی فصیلیں نہیں توڑی گئیں لہذا کچھ فرق و تفاوت ہے. البتہ دَورِ نبویؐ کی اس تقسیم میں ایک حسن نظر آتا ہے کہ سور ۃ الفاتحہ کے بعد پہلی منزل میں تین سورتیں‘ دوسری منزل میں پانچ‘ تیسری میں سات‘ چوتھی میں نو‘ پانچویں میں گیارہ اور چھٹی منزل میں تیرہ سورتیں ہیں‘ جبکہ ساتویں منزل ’’حزبِ مفصل‘‘ کہلاتی ہے جو ۶۵ سورتوں پر مشتمل ہے.
اس تقسیم سے معلوم ہوتا ہے کہ دورِ نبویؐ میں سورتوں کو ایک وحدت کی حیثیت سے برقرار رکھنے کی طرف بڑی توجہ تھی اور سورتوں کا توڑنا پسندیدہ نہیں تھا. اِس وقت جو ہمیں قرآن مجید تیس پاروں میں منقسم نظر آتا ہے‘ جنہیں ’’سی پارے‘‘ (تیس ٹکڑے) کہا جاتا ہے‘ یہ دورِ صحابہؓ ‘ کی شے نہیں ہے‘ بلکہ بعد کی تقسیم ہے. جب مسلمانوں میں تلاوت کا ذوق و شوق کم ہو گیا اور مسلمانوں نے سمجھا کہ اگر ہرمہینے ایک قرآن مجید ختم کر لیا جائے تب بھی بڑی بات ہے تو غالباً کسی مصحف کے صفحات گن کر اسے تیس حصوں میں تقسیم کر دیا گیا. اور چونکہ یہ بعد کا کام ہے لہذا اس تقسیم میں دورِ نبویؐاور دورِ صحابہؓ والا حسن برقرار نہیں رہ سکا اور سورتوں کی فصیلیں ٹوٹ گئی ہیں‘ بلکہ ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک سورت کی ایک آیت ایک پارے میں ہے اور بقیہ پوری سورت اگلے پارے میں چلی گئی ہے. آپ کو معلوم ہے کہ سورۃ الحجر (پارہ ۱۳+۱۴) کے ساتھ یہ حادثہ ہوا ہے.
سات احزاب کے علاوہ قرآن حکیم کی سورتوں کی ایک گروپ بندی اور بھی ہے. قرآن مجید میں ہمیں مکی اور مدنی سورتیں گڈمڈ نظر آتی ہیں‘ لیکن ان میں بڑی معنویت پنہاں ہے. چنانچہ ایک ترتیب میں آنے والی مکی اور مدنی سورتوں کو جمع کر کے اگر گروپ بندی کی جائے تو اس طرح بھی سات گروپ وجود میں آتے ہیں. اس طرح سے وجود میں آنے والے ہر گروپ کا آغاز ایک یا ایک سے زائد مکی سورتوں سے ہوتا ہے اور اختتام ایک یا ایک سے زائد مدنی سورتوں پر.یہ گروپ بندی معنوی لحاظ سے ہے ‘ چنانچہ اس میں حجم کا لحاظ نہیں ہے. کوئی گروپ بہت طویل ہے اور کوئی بہت مختصر.لیکن اگر بنظرغائر دیکھا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مکی اور مدنی سورتوں کے اجتماع سے وجود میں آنے والے ہر گروپ کا کوئی ایک مرکزی مضمون ہوتا ہے جسے اس گروپ میں شامل مکی اور مدنی سورتیں مل کر مکمل کرتی ہیں. اس مضمون کا ایک رُخ اس گروپ کی مکی سورتوں میں بیان ہوتا ہے تو دوسرا رُخ اسی گروپ کی مدنی سورتوں کے ذریعے سامنے آتا ہے. یوں دونوں مل کر اُس مضمون کی تکمیل کرتے ہیں.
پہلے اور آخری گروپ میں ایک عجیب عکسی (reciprocal) نسبت ہے کہ پہلے گروپ میں مکی سورت صرف ایک ہے ‘ یعنی سورۃ الفاتحہ جو نہایت مختصر سورۃ ہے اورکل سات آیات پر مشتمل ہے‘ جبکہ مدنی سورتیں چار ہیں جو بہت طویل ہیں اور تقریباً سات پاروں پر پھیلی ہوئی ہیں‘ یعنی البقرۃ‘ آل عمران‘ النساء اور المائدۃ.اس کے بالکل برعکس ہے آخری گروپ جو آخری دو پاروں پر محیط ہے.اس کا آغاز سورۃ الملک سے ہوتا ہے اور تقریباً یہ پورے دونوں پارے مکی سورتوں پر ہی مشتمل ہیں‘ صرف آخر میں چھوٹی چھوٹی چند سورتیں مدنی ہیں. یہ تو تھا معاملہ پہلے اور آخری گروپ کا‘ درمیانی گروپوں میں بھی بڑا توازن نظر آتا ہے.
دوسرا گروپ اور آخری سے دوسرا یعنی چھٹا گروپ اس پہلو سے نہایت متوازن ہیں کہ ان میں مکی اور مدنی سورتوں کا تناسب تعداد اور حجم کے اعتبار سے قریباً مساوی ہے. چنانچہ دوسرے گروپ میں الانعام اور الاعراف مکیات ہیں‘ جبکہ الانفال اور التوبۃ مدنیات. جبکہ چھٹے گروپ میں سات سورتیں مکی ہیں جو تقریباً ایک پارے یا اس سے قدرے زائد پر پھیلی ہوئی ہیں‘ اور دس سورتیں مدنی ہیں جو حجم کے اعتبار سے تقریباً سوا پارہ بنتی ہیں. گویا وہی توازن جو دوسرے گروپ میں تھا یہاں چھٹے گروپ میں بھی موجود ہے. اس گروپ کے بارے میں یہ بات بڑی نمایاں ہے کہ اس کی مکیات فصاحت و بلاغت‘ ترکیب ِ الفاظ اور صوتی آہنگ (rhythm) کے اعتبار سے قرآن مجید میں منفرد مقام اور نمایاں مرتبے کی حامل ہیں‘ یعنی سورۂ ق‘ سورۃ الذاریات‘ سورۃ الطور‘ سورۃ النجم‘ سورۃ القمر‘ سورۃ الرحمن اور سورۃ الواقعہ. چنانچہ ان میں ایک سورۃ وہ بھی ہے‘ یعنی سورۃ الرحمن‘ جسے نبی اکرمﷺ نے ’’عروس القرآن‘‘ ( قرآن کی دلہن) قرار دیا ہے. گویالفظی اور ادبی اعتبار سے قرآن مجید کا حسین ترین حصہ یہی ہے جو اِس گروپ کی مکیات پر مشتمل ہے.
اس گروپ کی مدنیات بھی دو اعتبارات سے نمایاں مقام و مرتبہ کی حامل ہیں. ایک تو اس پہلو سے کہ مدنی سورتوں کا اتنا بڑا اکٹھ قرآن حکیم میں اور کہیں نہیں ہے‘ اور دوسرے اس پہلو سے کہ ان سورتوں میں اہم مضامین کے خلاصے آ گئے ہیں جن کی ہمارے نقطہ نگاہ سے بڑی اہمیت ہے. قرآن مجید کے بہت سے اہم موضوعات بالخصوص وہ کہ جو مسلمانوں سے بحیثیت ِ اُمت ِ مسلمہ متعلق ہیں اور جو طویل مکی اور مدنی سورتوں میں تفصیل کے ساتھ آئے ہیں‘ ان سب کے خلاصے گویا ان دس چھوٹی سورتوں کی شکل میں ہمیں عطا کر دیے گئے ہیں. یہی وجہ ہے کہ ان دس میں سے چھ سورتیں ہمارے اس منتخب نصاب میں شامل ہیں‘ جن میں سے پانچ کا مطالعہ اس سے قبل ہم کر چکے ہیں‘ یعنی سورۃ الصف‘ سورۃ الجمعۃ‘ سورۃ المنافقون‘ سورۃ التغابن اور سورۃ التحریم‘ جبکہ چھٹی سورۃ (الحدید) ہمارے زیر مطالعہ ہے.
ان دس سورتوں میں سے پانچ کی اضافی امتیازی شان یہ ہے کہ ان کا آغاز تسبیح باری تعالیٰ کے ذکر سے ہوتا ہے‘ سَبَّحَ لِلّٰہِ یا یُسَبِّحُ لِلّٰہِ کے الفاظِ مبارکہ سے. چنانچہ ان کے لیے ایک مجموعی نام’’المُسَبِّحات‘‘ تجویز کیا گیا ہے. یہ پانچ سورتیں سورۃ الحدید‘ سورۃ الحشر‘سورۃ الصف ‘ سورۃ الجمعۃ اور سورۃ التغابن ہیں ‘جن میں سوائے سورۃ الحشر کے بقیہ چاروں سورتیں ہمارے اس منتخب نصاب میں شامل ہیں.