اس سورۂ مبارکہ کے بارے میں اپنا ایک تأ ثر تحدیث ِنعمت کے طور پر عرض کررہا ہوں کہ بالکل آغاز میں جبکہ ابھی میں اپنے اس مشن کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سورۂ مبارکہ کے حوالے سے خصوصی انشراح عطا فرمایا تھا اور اس سے مجھے ایک خصوصی ذہنی و قلبی نسبت اور مناسبت عطا فرما دی تھی. یہ میں ۵۷.۱۹۵۶ء کی بات کر رہا ہوں. اُس وقت سے میں مختلف مواقع پر اس کے دروس دیتا رہا ہوں.
۱۹۵۸ء کا ذکر ہے کہ میں نے کراچی کی ایک محفل میں سورۃ الحدید کا درس دیا. اس محفل میں میرے اعزہ میں سے ایک صاحب موجود تھے جو مجھ سے عمر میں بڑے ہیں‘ ان کی جماعت اسلامی کی رکنیت قبل از تقسیمِ ہند سے ہے. اس سے پہلے وہ علماءِ دیوبند میں سے خاص طور پر تھانوی حلقے سے وابستہ تھے. گویا مذہبی اور دینی مزاج شروع سے ہے. انہوں نے جب میرا درس سنا تو اُس وقت کہا تھا کہ آپ کو اللہ نے قرآن مجید کے ساتھ جو مناسبت عطا کی ہے اس کے پیش نظر آپ میڈیکل پریکٹس اور دوسرے سارے دھندے چھوڑیں اور اب صرف دین کے پڑھنے پڑھانے میں لگ جائیں‘ آپ کے سارے اخراجات میرے ذمہ رہیں گے. بہرحال میں نے تواس بات کو اُس وقت ہنس کر ٹال دیا تھا‘ لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اصل میں انسان کوقرآن مجید کی جو نعمت بھی ملتی ہے وہ محض پڑھنے پڑھانے سے نہیں ملتی‘ بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کوقرآن حکیم کی جو تھوڑی بہت سمجھ دے دی ہو اُس پر وہ عمل کر رہا ہو تو پھر اس پرمزید دروازے کھلتے ہیں اور فہم قرآن کے کچھ اور پہلو منکشف ہوتے ہیں‘ پھر آدمی جب اپنے عمل میں اضافہ کرتا ہے تو پھر اور چیزیں سامنے آتی ہیں. اس طرح یہ درجہ بدرجہ انکشاف ہوتا ہے.
مولانا مودودیؒ مرحوم نے تفہیم القرآن کے مقدمہ میں بڑی پیاری بات لکھی ہے کہ قرآن مجید ایسی کتاب نہیں ہے جسے کوئی شخص اپنی لائبریری میں آرام کرسی پر بیٹھ کر لغت کی کتابوں اور ریفرنس بکس کی مدد سے سمجھ لے. قرآن اپنے آپ کو اس طور سے reveal کرتا ہی نہیں. وہ تو آپ کو جس جدوجہد میں لگانا چاہتا ہے اس میں آپ بالفعل لگ جایئے اور اس کے ساتھ ساتھ قرآن کا مطالعہ بھی کرتے رہیے اور اس کا درس بھی دیتے رہیے‘ تو واقعہ یہ ہے کہ رفتہ رفتہ پھر یہ گرہیں کھلتی چلی جاتی ہیں اور نئے نئے مضامین کا انکشاف ہوتا ہے. گویا ؎
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے!
میرے بہت سے احباب نے بارہا مجھ سے کہا ہے کہ آپ قرآن مجید کی تفسیر لکھیں. میں نے ان سے صاف صاف کہا ہے کہ میرا یہ مقام ہی نہیں ہے. آج بھی میں سمجھتا ہوں کہ میرا یہ مقام نہیں ہے. البتہ سورۃ الحدید کے بارے میں میرے دل میں ایک آرزو پوشیدہ ہے کہ کبھی اللہ تعالیٰ موقع دے دے تو میں اس سورۂ مبارکہ کے مضامین کواور جو بھی اس کے مختلف حقائق ودقائق مجھ پر منکشف ہوئے ہیں‘ قلم بند کردوں. آپ بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے اس کی توفیق عطا فرمائیں!
تمہیدی امور میں سے آخری بات یہ کہ مجھے اس سورۂ مبارکہ کے درس کے آغاز کے موقع پر ایک خوف بھی محسوس ہورہا ہے‘ اور یہ خوف دو اعتبارات سے ہے ‘ایک تو طوالت کا خوف ہے کہ ہو سکتا ہے بات بڑھتی چلی جائے. میں حتی الامکان کوشش کروں گا کہ بات ایک حد تک رہے اور میری کوشش یہی ہو گی کہ بارہ نشستوں میں اس سورۂ مبارکہ کی تکمیل ہو جائے‘ لیکن میں اس کا یقین نہیں رکھتا‘ اللہ تعالیٰ جو چاہے گا وہی ہو گا. مزید برآں مجھ پر اس کی عظمت کا رعب بھی ہے‘ خاص طور پر اس کے پہلے حصے کو بیان کرنا واقعتا آسان کام نہیں ہے. آپ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ انشراح عطا فرمائیں! اب ہم اس سورۂ مبارکہ کا سلسلہ وار درس شروع کر رہے ہیں.