پہلی آیت . تسبیح باری تعالیٰ کا مفہوم

سورۃ الحدید کا پہلا حصہ ابتدائی چھ آیات پر مشتمل ہے. اس سورۂ مبارکہ کا آغاز اِن پرشکوہ الفاظ ِ مبارکہ سے ہوتا ہے: سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ ’’تسبیح بیان کرتی ہے اللہ کی ہر وہ شے جو آسمانوں اور زمین میں ہے‘‘. اس کا پہلا لفظ ’’سَبَّحَ‘‘ ہے. اس لفظ پر گفتگو اگرچہ سورۃ الصف‘ سورۃ الجمعہ اور سورۃ التغابن کے ضمن میں ہو چکی ہے‘ لیکن بہرحال اب جبکہ ہم اس کا مطالعہ کر رہے ہیں تو میں تیزی کے ساتھ چند باتیں دہرا دینا چاہتا ہوں. اس کا ترجمہ ہم کرتے ہیں ’’اللہ کی تسبیح کرتی ہے ‘ پاکی بیان کرتی ہے ہر شے جو آسمان اور زمین میں ہے‘‘. لیکن جان لینا چاہیے کہ لغوی طور پر لفظ’’سَبَّحَ‘‘ کا مفہوم کیا ہے! سَبَحَ یَسْبَحُ عر بی زبان میں آتا ہے کسی شے کے تیرنے کے لیے. تیرنا پانی میں بھی ہو سکتا ہے‘ ہوا میں بھی اور خلا میں بھی. یعنی کوئی شے اپنی سطح پر برقرار رہے‘ نیچے نہ گرے. اگر پانی کی سطح پر ہے تو گویا کہ وہ تیر رہی ہے‘ اگر نیچے جائے گی تو ڈوب جائے گی. اسی طرح کوئی شے اگر خلا میں یا فضا میں حرکت کر رہی ہے ‘لیکن اپنے مدار پر برقرار ہے‘ اپنی سطح پر قائم ہے تو یہ ہے سَبَحَ یَسْبَح ُ یعنی تیرنا. یہ فعل لازم ہے. اس سے باب تفعیل میں ’’سَبَّحَ یُسَبِّحُ‘‘ آتا ہے‘ یعنی کسی شے کو تیرانا.یہاں پر اب یہ فعل متعدی بن گیا. کسی شے کو اس کی اصل جگہ پر‘ اس کی سطح پر برقرار رکھنا‘ اسے نیچے نہ گرانا یا نیچے نہ گرنے دینا. یہ اس لفظ کا لغوی مفہوم ہے.

اللہ کی تسبیح کے کیا معنی ہیں؟ اللہ کا جو مقامِ بلند ہے‘ اسے اس پر برقرار رکھا جائے. کوئی ایسا تصور اُس کی ذات یا صفات کے ساتھ شامل نہ ہو جائے جو اُس کے شایان ِ شان نہ ہو اور اس کے مقام سے فروتر ہو. اللہ کو اس کے اصل مقامِ رفیع پر برقرار رکھنا اللہ کی تسبیح ہے. اس کو اب ہم اس طور سے بیان کرتے ہیں کہ تسبیح سے مراد یہ کہنا ہے کہ اللہ پاک ہے‘ اعلیٰ ہے‘ ارفع ہے‘ ہر عیب سے مبرا ہے‘ منزہ ہے‘ نہ اس میں کسی اعتبار سے کوئی عیب ہے نہ کسی لحاظ سے کوئی نقص ہے. نقص اور عیب میں یہ فرق ہے کہ عیب وہ شے ہے جو کہ ناپسندیدہ ہے اور نقص صرف کمی کا نام ہے. نہ کسی اعتبارسے اسے کوئی 
احتیاج لاحق ہے‘ جس کو ہم اپنی زبان میں کہیں گے کہ اس کی کنّی کسی سے دبتی نہیں ہے‘ وہ مستغنی ہے‘ اس کو کسی کی کوئی احتیاج نہیں. تو اس بات کا اقرار کرنا کہ اللہ تعالیٰ ہر احتیاج سے‘ ہر عیب سے‘ ہرنقص سے ‘ ہر کوتاہی سے اعلیٰ‘ ارفع‘ منزہ اور مبرا ہے‘ یہ تسبیح ہے. 

تسبیح کی دو قسمیں ہیں. ایک تسبیح قولی ہے. جو ہم کہتے ہیں 
سُبْحَانَ اللّٰہِ‘ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ‘ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی‘ یہ تسبیح قولی ہے. یعنی زبان سے اللہ کی پاکی کا اور اللہ کے ہر اعتبار سے ایک ہستی کامل ہونے کا اقرار کرنا. جبکہ ایک تسبیح حالی ہے کہ کائنات کی ہر شے گویا اپنے وجود سے اللہ کی تسبیح کر رہی ہے کہ میرا خالق‘ میرا صانع‘ میرا ڈیزائنر‘ میرا‘ Creator ایک ہستی کامل ہے کہ جس کے علم میں‘ قدرت میں‘ حکمت میں کہیں کوئی کمی نہیں. اس لیے کہ تصویر حقیقت میں اپنے مصور کے کمالِ فن یا نقص فن کا منہ بولتا ثبوت ہوتی ہے. اگر اس کے فن میں کوئی کمی ہے تو اس کی غمازی بھی تصویر کر دے گی.اور اگر اس کا فن کمال پر ہے‘ نقطہ عروج پر ہے تو بھی اس کی تصویر زبانِ حال سے بول رہی ہوگی. تو یہ کل کائنات اس معنی میں اللہ کی تسبیح کر رہی ہے.

تسبیح حالی کا یہ مفہوم تو بالکل سمجھ میں آ جاتا ہے‘ لیکن قرآن مجید کے بعض مقامات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شے کو کوئی زبان بھی دے رکھی ہے جس سے وہ اُس کی تسبیح کر رہی ہے. یہ بات اگرچہ ہماری سمجھ میں نہ آئے لیکن ایک تو قرآن مجید میں صراحت سے مذکور ہے کہ جب حضرت داؤد علیہ السلام حمد کے ترانے الاپتے تھے تو اس میں پہاڑ بھی ان کے ساتھ شریک ہو جاتے تھے اور پرندے بھی شامل ہو جاتے تھے.یہ قرآن مجید کی نص قطعی ہے. مزید برآں سورۂ بنی اسرائیل کی آیت ۴۴ میں ارشاد ہے: 
تُسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّبۡعُ وَ الۡاَرۡضُ وَ مَنۡ فِیۡہِنَّ ؕ ’’اللہ کی تسبیح تو ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان آسمانوں اور زمین میں ہے‘ سب کر رہے ہیں‘‘. اب یہ تو مثبت پہلو ہوا‘ منفی طور پر پھر فرمایا : وَ اِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمۡدِہٖ وَ لٰکِنۡ لَّا تَفۡقَہُوۡنَ تَسۡبِیۡحَہُمۡ ؕ ’’نہیں ہے کوئی شے مگرو ہ تسبیح کر رہی ہے اس کی تحمید کے ساتھ‘ لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھ سکتے‘‘. تو تسبیح حالی تو ہماری سمجھ میں آ رہی ہے‘ معلوم ہوا کہ کائنات کی ہر شے تسبیح قولی میں بھی مشغول ہے. 

قرآن مجید کے ایک اور مقام سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو قیامت کے دن لوگوں کے اعضاء کو بھی زبان دے دے گا‘ اور ان کے ہاتھ ‘ ان کے کان‘ ان کی آنکھیں‘ ان کے اپنے اَعضاء و جوارح اور ان کی اپنی کھالیں ان کے خلاف گواہی دیں گی. اور جب وہ کہیں گے : 
لِمَ شَہِدۡتُّمۡ عَلَیۡنَا ؕ ’’(ہمارے اپنے اعضاء ہو کر) تم ہمارے خلاف گواہی کیوں دے رہے ہو؟ ‘‘ تو یہ اعضاء و جوارح جو جواب دیں گے قرآن مجید میں وہ قول نقل ہو ا ہے : قَالُوۡۤا اَنۡطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیۡۤ اَنۡطَقَ کُلَّ شَیۡءٍ 

(حٰمٓ السجدۃ:۲۱’’وہ کہیں گے کہ آج ہمیں بھی نطق اور گویائی عطا فرما دی ہے اللہ نے جس نے ہر شے کو نطق اور گویائی عطا فرمائی ہے‘‘. 

یہ مختلف مقامات ہیں جن کے حوالے سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کی ہر شے کو اللہ نے کوئی زبان بھی دی ہوئی ہے. یہ تو ہم جانتے ہیں کہ حیوانات کی اپنی زبان ہے‘ آخر وہ ایک دوسرے کو اپنی بات سمجھاتے ہیں اور سمجھتے ہیں. آخر ایسے جانور بھی ہیں جو کالونیاں بنا کر مل جل کر رہتے ہیں‘ ان کا پورا نظام ہے‘ ان کا پورا کاپورا سِوِک 
(civic) سسٹم ہے‘ چاہے چیونٹیاں ہوں یا شہد کی مکھیاں ہوں ‘تو کیسے ممکن ہے کہ ان کی باہم گفتگو نہ ہوتی ہو ! تو ا س اعتبار سے یہ تسبیح ‘ تسبیح حالی بھی ہے اور تسبیح قولی بھی.

یہاں 
’’سَبَّحَ‘‘ صیغۂ ماضی ہے.اس کے بعد دو اور سورتوں یعنی سورۃ الحشر اور سورۃ الصف میں یہ لفظ اسی طرح آیا ہے‘ لیکن پھر سلسلۂ مُسَبِّحات کی آخری دو سورتوں (الجمعہ اور التغابن) میں یہ لفظ مضارع کے صیغے ’’یُسَبِّحُ‘‘ میں ڈھل گیا. ’’یُسَبِّحُ‘‘ کا لفظ ایک بار سورۃ الحشر کے اختتام پر بھی آیا ہے. اس طرح ان سورتوں میں تسبیح کا ذکر تین مرتبہ فعل ماضی میں ہوا اور تین ہی مرتبہ فعل مضارع میں.

قرآن مجید 
’’مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ‘‘ یعنی ’’ آسمانوں اور زمین میں‘‘ کے الفاظ کل کائنات کی تعبیر کے لیے استعمال کرتا ہے. ہم فلسفیانہ زبان میں اس کے لیے کون و مکاں‘ کل کائنات‘ The Total Universe جیسے مختلف الفاظ استعمال کریں گے‘ لیکن قرآن مجید نے اپنا اسلوب بہت سادہ رکھا ہے‘ کیونکہ اس کے مخاطبِ اوّل ایک ایسی قوم کے افراد تھے کہ جن کے ہاں پڑھنے لکھنے کا کوئی رواج نہیں تھا‘ فلسفہ اورمنطق تو ان کے لیے بہت ہی بعید شے تھی. اس حوالے سے قرآن نے وہ انداز اختیارکیا جو فطرت کے بالکل قریب ترین اور سادہ ترین انداز ہے. چنانچہ آپ کو قرآن مجید میں کہیں کائنات کا لفظ نہیں ملے گا‘ جب بھی قرآن کل کون و مکاں کہنا چاہتا ہے ’’مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ‘‘ کے الفاظ استعمال کرتا ہے ‘تاکہ ایک عام بدو بھی اس کو سمجھ لے‘لیکن اس سے مراد کل کائنات ہے‘ جس کے لیے ہم اگر زیادہ فلسفیانہ لفظ استعمال کریں تو ’’کون و مکاں‘‘ ہے‘ یعنی یہ جو بھی ٹائم اینڈ سپیس کمپلیکس (Time & Space Complex) موجود ہے اس میں ہر شے اللہ تعالیٰ کی تسبیح میں مشغول ہے.