آیت کے آخری ٹکڑے پرغور کیجیے: وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱﴾ ’’اور وہ زبردست ہے‘ حکمت والا ہے.‘‘ اللہ تعالیٰ کے یہ دونوں اسماء اِن سورتوں میں بہت تکرار کے ساتھ آئے ہیں. سورۃ الصف کے شروع میں بھی آئے‘ سورۃ الجمعہ کی پہلی آیت کا اختتام بھی ان دونوں اسماء کے ساتھ ہوا. سورۃ الحشر تو اس اعتبار سے بہت عجیب ہے کہ اس کے آغاز میں بھی تسبیح ہے‘ آخر میں بھی تسبیح ہے. پہلی آیت کے الفاظ ہیں : سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱﴾ اورآخری آیت کا اختتام ان الفاظ پر ہو رہا ہے : یُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿٪۲۴﴾ یعنی پہلی اور آخری دونوں آیتوں کے آخری الفاظ ’’ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ‘‘ ہیں. اسی طرح سورۃ التغابن کا اختتام بھی انہی الفاظ پر ہو رہا ہے. 

اللہ تعالیٰ کے اَسماء و صفات جو قرآن مجید کی اکثر آیات کے آخر میں آتے ہیں‘ یعنی جن پر آیات کا اختتام ہوتا ہے‘ بالعموم جوڑوں کی صورت میں آتے ہیں ‘ جیسے 
وَ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ ‘ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ‘ وَھُوَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ . تو یہ مختلف جوڑے آپ کو ملیں گے.یہ اگر الف لام کے ساتھ ہوں تو اسماء شمار ہوں گے اور بغیر الف لام کے‘ تنوین کے ساتھ ہوں‘ جیسے غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ تو صفات شمار ہوں گے.تو یہاں فرمایا : وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱﴾ ’’وہ زبردست ہے‘ حکیم ہے‘‘.

ان دونوں اسماء کی باہم مناسبت کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے اسماء کو جوڑا گیا ہے تو کسی مناسبت کی وجہ سے جوڑا گیا ہے. ان دونوں اسماء میں بہت گہرا ربط ہے. ’’عزیز‘‘ کہتے ہیں ایسی ہستی کو جس کا اختیار مطلق ہو‘ جس کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے والا کوئی نہ ہو‘ آخری اختیار اُس کے پاس ہو. لفظ ’’حکیم‘‘ کے دو مفہوم ہیں. 
’’ح ک م‘‘ مادہ سے لفظ حکمت بھی بنا ہے اور اسی سے حکومت اور حاکم بھی بنا ہے‘ تو لفظِ حکیم اپنے اندر بہت سے معنی رکھتا ہے. لیکن یہاں پر عام طور پر ترجمہ کیا جاتا ہے: حکمت والا‘ دانا. ہمارے عام مشاہدے اور انسان کے عمومی تصور سے یہ بات سامنے آتی ہے‘ خاص طو رپر پولٹیکل سائنس میں یہ بحث بڑی تفصیل کے ساتھ آتی ہے کہ جہاں بھی اختیار ہو گا اس کے ناجائز استعمال کا احتمال ہو گا.

".Authority tends to corrupt and absolute authority corrupts absolutely"

یہی وجہ ہے کہ دستور سازی میں سب سے اہم اور سب سے پیچیدہ مسئلہ یہی ہوتا ہے کہ جہاں کوئی اتھارٹی ہو وہاں کوئی روک تھام اور احتساب کا نظام بھی ہونا چاہیے‘ ورنہ یہ کہ اگر صاحبِ اختیار بدعنوان ہو جائے‘ جہاں کسی کی ذات میں زیادہ اختیارات مرکوز ہوجائیں اور اس کے دماغ کے اندر خناس پیدا ہو جائے تو وہ لامحالہ ان اختیارات کا ناجائز استعمال کرے گا. لہذا checks & balances ہونے چاہئیں. چنانچہ مملکتوں کے جو دستور بنتے ہیں ان میں سب سے نازک مسئلہ یہی ہوتا ہے کہ اختیارات میں ایک توازن ہو‘ بیلنس ہو‘ اور جہاں اختیار ہو وہیں پر کوئی احتساب کا نظام بھی موجود ہو. لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات ہمارے اس تصورسے وراء الوراء ثم وراء الوراء ہے اور اس کا اختیارِ مطلق حدود و قیود سے ماوراء ہے. البتہ جہاں وہ اختیارِ مطلق کا مالک ہے وہیں الحکیم بھی ہے‘ اس کی حکمت بھی کامل ہے. اس کا اختیارِ مطلق الل ٹپ استعمال نہیں ہوتا‘ حکمت کاملہ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے. کسی زمانے میں تو میں اس مفہوم کو ادا کرنے میں ذرا غیر محتاط الفاظ استعمال کر جاتا تھا کہ ’’اُس کا اقتدار اُس کی حکمت کے تابع ہے‘‘. یا یہ کہ ’’اس کا اختیارِ مطلق حکمت ِکاملہ کے تحت استعمال ہوتا ہے‘‘. لیکن یہ الفاظ ہمیں استعمال نہیں کرنے چاہئیں‘کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات اپنی جگہ پر مطلق ہیں‘ کوئی صفت کسی دوسری صفت کے تابع نہیں ہے. اس لیے کہ جو تابع ہوئی وہ پھر مطلق نہ رہی‘ بلکہ محدود ہو گئی. اس لیے یہاں تعبیر کا بہتر انداز یہ ہو گا کہ جہاں اس کے اندر اختیارات کا ارتکاز ہے اس کے ساتھ ہی حکمت کاملہ بھی موجود ہے. تو اس کا اختیار حکمت کے ساتھ استعمال ہوتا ہے. یہ ہے درحقیقت ان دونوں اسماء میں باہمی ربط.