دوسری آیت میں فرمایا: 
لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ ۚ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۲
’’اسی کے لیے ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی‘ وہ زندہ کرتا ہے اور موت دیتا ہے‘ اور وہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘.

آیت کے آغاز میں جو حرفِ جار’’ل‘‘ آیا ہے یہ عربی میں بہت سے معنوں میں آتا ہے‘ لیکن ایسے مقامات پر یہ اکثر و بیشتر دومعنوں کا حامل ہوتا ہے. یہ لام تملیک کے لیے بھی ہو سکتا ہے اور استحقاق کے لیے بھی. تملیک کا مفہوم ہے ’’کسی شے کا مالک ہونا‘‘جیسے 
ھٰذَا الْقَلَمُ لِـیْ ’’یہ قلم میراہے‘‘ یعنی میں اس کا مالک ہوں‘ یہ میری ملکیت ہے. اوراستحقاق یہ ہے کہ کسی کو اُس کا حق پہنچتا ہو. اسی کو آپ انگریزی میں کہتے ہیں: 

de facto & de jure. چنانچہ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ کا مفہوم ہوگا کہ آسمانوں اور زمین کی حکومت اور بادشاہی de facto بھی اُسی کی ہے اور de jure بھی اُسی کی ہے. اُسی کو حاکمیت کا حق پہنچتا ہے اور بالفعل بھی وہی حاکم ہے. اُسی کو حق پہنچتا ہے کہ وہ مالک ہو اور بالفعل بھی وہی مالک ہے. 

اب دیکھئے کہ یہ لفظ ’’ملک‘‘ بھی دونوں معنی دیتا ہے. 
’’م ل ک ‘‘ ہی سے ملکیت اور مالک ہے ‘ اور اسی سے ملک ہے‘ یعنی حکومت‘ بادشاہی. اسی لیے سورۃ الفاتحہ کی قراء ت میں بھی ’’مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ‘‘ اور ’’مَلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘ دونوں قرائتیں موجود ہیں. ’’مَلِکِ‘‘ بادشاہ ہے اور ’’مالک‘‘ کسی شے کی ملکیت کا حق رکھنے والا. اور دونوں میں منطقی ربط یہی ہے کہ جو کسی شے کا مالک ہے اسی کو اختیار حاصل ہے کہ اسی کی مرضی کے مطابق اس میں تصرف ہو. اس پہلو سے اللہ کی بادشاہی ’’ملک یا ملوکیت‘‘ اور اللہ کی ملکیت دونوں باہم لازم و ملزوم ہیں. اور ’’لَہٗ‘‘ میں یہ دونوں پہلو ہیں.