میں اپنے ’’خطباتِ خلافت‘‘ اور دیگر خطابات میں یہ بات بڑی تفصیل سے واضح کر چکا ہوں کہ غیر اللہ کی حاکمیت کا تصور اِس دَور کا سب سے بڑا شرک ہے. بادشاہی صرف اللہ کے لیے ہے. اسی کی بہترین تعبیر علامہ اقبال نے اس طرح کی ہے ؎ 

سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اِک وہی ‘ باقی بتانِ آزری!

چاہے وہ فردِ واحد ہو ‘ جو فرعون یا نمرود بن گیا ہو اور چاہے وہ حاکمیت ِجمہور کا تصور ہو. یہ بات سمجھانے کے لیے میں نے بارہا یہ تمثیل دی ہے کہ گندگی کی کوئی ٹنوں وزنی گٹھری خواہ ایک شخص کے سر پر رکھی ہو اور خواہ اسے تولہ تولہ ‘ماشہ ماشہ تمام لوگوں میں تقسیم کر دیا جائے‘ گندگی تو گندگی رہے گی. فرعونیت اور نمرودیت یہ تھی کہ ایک فرد اقتدارِ اعلیٰ کا مدعی تھا. فرعون نے کہا تھا : اَلَیۡسَ لِیۡ مُلۡکُ مِصۡرَ وَ ہٰذِہِ الۡاَنۡہٰرُ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِیۡ ۚ (الزخرف:۵۱’’کیا مصر کی حکومت میری نہیں ہے؟ اور یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہہ رہی ہیں؟‘‘ یعنی یہ آب پاشی اور آب رسانی کا سارانظام میرے اختیار میں ہے‘ جس کو چاہوں پانی دوں‘ جس کا چاہوں موگہ بند کر دوں! یہ تھا فرعون کا دعویٰ جس کو قرآن مجید نے تعبیر کیا کہ اس نے خدائی کا دعویٰ کیا: اَنَا رَبُّکُمُ الۡاَعۡلٰی لیکن یہی معاملہ آج یہ صورت اختیار کر چکا ہے کہ خدائی کا دعویٰ تقسیم ہو گیا ہے‘ اسے تمام لوگوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے. چنانچہ نظری اعتبار سے سب حاکم ہیں . عوام کی حاکمیت (Popular Sovereignty) ہے‘ لیکن جان لیجیے کہ اسلام کے نزدیک حاکمیت صرف اللہ کی ہے. لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ آسمانوں اور زمین کی حاکمیت کا حق‘ حکومت کا حق صرف اُ سی کو حاصل ہے اور بالفعل بھی وہی حاکم ہے.