اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو تھوڑا سا اختیار دیا ہے اوروہ اسی کے بل بوتے پر حاکم بن کر بیٹھ گیا ہے‘ حالانکہ اگر آپ حقیقت کے اعتبار سے غور کریں تو معاملہ بالکل وہی نظر آتا ہے جس کو محاورے میں کہا جاتا ہے کہ چوہے کو ہلدی کی گانٹھ مل گئی تھی اور وہ پنساری بن کر بیٹھ گیا تھا. کیا حکومت ہے انسان کی! اپنے وجود پر تو اس کا اختیار چل نہیں رہا. اس کے اپنے جسم کا پورا نظام اللہ کے قانون میں جکڑا ہوا ہے. وہ اگر چاہے کہ میرے جسم کے فلاں حصے پر بال نہیں اگنے چاہئیں تو اسے اس کا بھی اختیار نہیں. وہ تو اگیں گے‘ آپ ان کو روک نہیں سکتے. آپ کی انتڑیوں کے اندر حرکت آپ کے اختیار میں نہیں ہے‘ وہ تو کوئی اور ہی قانون ہے‘ کسی اور ہی کی مرضی ہے جس کے تحت ان میں حرکت ہو گی. آپ کا دل آپ کے اختیار میں نہیں ہے‘ جب بند ہو جائے گا تو پھر آپ کی مرضی سے دھڑکنے والا نہیں ہے. معلوم ہوا کہ ہماراا پنا پورا وجود اسی قانونِ خداوندی کے اندر جکڑا ہوا ہے. اذنِ ربّ کے بغیر پتا تک نہیں ہلتا. ہمارے اپنے وجود کے اندر بھی پورے کا پورا نظام اسی قانون کے شکنجے میں ہے. لیکن اللہ نے بس ایک اختیار دے رکھا ہے : اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا یعنی چاہو تو شکر گزاری کی راہ اختیار کرو اور چاہو تو ناشکری کی روش اختیار کرو. یہ اُ سی کی دی ہوئی آزادی ہے‘ لیکن ہم نے ہلدی کی اس گانٹھ کے برتے پر اپنی بادشاہی کا تخت جمالیا ہے.