اب تیسرے درجے میں ایک بات اور ہے .اللہ کی صفات کی بھی ہم نہ تو کمیت کو جانتے ہیں نہ کیفیت کو . یہ ہمارے علم اور فہم کی محدودیت ہے. ہم یہ جانتے ہیں کہ اللہ قادر ہے لیکن کتنا قادر ہے؟ ہمارے ذہن کے اندر اس کا کوئی تصور نہیں آ سکتا‘ اس لیے کہ سنار کی ترازو ماشے تولے ہی تول سکتی ہے‘ ٹنوں کا وزن نہیں تول سکتی. چنانچہ اللہ کی قدرتِ مطلق کا ہمارا ذہن کیا تصور کر سکتا ہے؟ اسی طرح ہم یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ’’البصیر‘‘ ہے‘ دیکھنے والا ہے ‘وہ ’’السّمیع‘‘ ہے‘ سننے والا ہے. لیکن وہ کیسے سنتا ہے‘ یہ ہم نہیں جانتے. کیا اس کے کوئی کان ہیں؟ معاذ اللہ! کیا وہ ہماری طرحsound waves کا محتاج ہے کہ waves آ کر کان کے پردے سے ٹکرائیں تو کچھ سنائی دے گا؟ معاذ اللہ! تو وہ کیسے سنتا ہے؟ دیکھنے کے لیے کیا وہ کسی روشنی کا محتاج ہے کہ اس کے ذریعے آنکھ کے پردے (retina) کے اوپر جا کر عکس بنتا ہے؟ معاذاللہ! تو وہ کیسے دیکھتا ہے؟ نہ ہم کمیت جا ن سکتے ہیں‘ اس لیے کہ وہ تو ہمارے تصور سے ماوراء ہے. وہ علیم ہے تو کتنا علیم ہے؟ کتنا علم ہے اس کا؟ ہم کیسے ناپیں گے‘ کیسے تولیں گے؟ پھر وہی بات کہوں گا کہ سنار والی ترازو پر یہ ٹنوں وزن کیسے تولا جائے گا! اس حوالے سے یہ ہماری درماندگی ہے. قرآن کریم ہماری اس درماندگی کا علاج لفظ’’کل‘‘ سے کرتا ہے. وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۲﴾. ہمارے پاس اس کے سوا کوئی لفظ ہے ہی نہیں کہ ’’وہ ہر شے پر قادر ہے‘‘. اور آگے چل کر آئے گا: وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۳﴾ ’’وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے‘‘. بس ’’ہر‘‘ کے لفظ میں یا ’’کل‘‘ کے لفظ میں پناہ لینے کے سوا ہمار ے پاس کوئی اور چارۂ کار نہیں ہے. نہ ہم یہ جان سکتے ہیں کہ اس کی قدرت کتنی ہے‘ نہ ہم یہ جان سکتے ہیں کہ اس کی قدرت کی کیاکیفیت ہے. اس کا علم کتنا ہے؟ ہم نہیں جان سکتے . اس کے علم کی نوعیت کیا ہے؟ معاذ اللہ‘ ہم کیا جانیں!

زیر مطالعہ آیت کے اختتام پر الفاظ آئے ہیں: 
وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۲﴾ اور اس سے اگلی آیت ان الفاظ پر ختم ہو رہی ہے: وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۳﴾ اور ان دو صفات (علم اور قدرت) کو یوں کہنا چاہیے کہ یہ ’’اُمّ الصفات‘‘ ہیں. اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء صفت علم ہی سے متعلق ہیں. مثلاً اللہ تعالیٰ خبیر ہے‘ سمیع ہے‘ بصیر ہے.اور یہ سب علم ہی کے تو شعبے ہیں. اسی طرحالقابض‘ الباسط‘ الرافع ‘ الخافض‘ یہ سب درحقیقت ’’وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ‘‘ ہی کی تو شرح ہیں. بس ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی شے کے بارے میں اگر ہمارے ذہن میں یہ وسوسہ پیدا ہوجائے کہ اللہ یہ کیسے کرے گا؟ تو معلوم ہوا کہ ’’وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ‘‘ پر ہمارا ایمان نہیں ہے. اس کی قدرت تو مطلق ہے‘ boundless اور limitless ہے. کوئی شے اس کے لیے مشکل نہیں. اسی طرح ہر شے اس کے علم میں ہے. اورصفت علم کو تو آپ دیکھیں گے کہ اگلی آیات میں کیسے دہرا دہرا کر لایا گیا ہے: یَعۡلَمُ مَا یَلِجُ فِی الۡاَرۡضِ وَ مَا یَخۡرُجُ مِنۡہَا وَ مَا یَنۡزِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَ مَا یَعۡرُجُ فِیۡہَا ؕ وَ ہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ ﴿۴﴾ یہ وہی اس کی صفت علم ہی تو چلی آ رہی ہے. اور وَ ہُوَ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ﴿۶﴾ میں بھی اسی صفت علم ہی کا تو تذکرہ ہو رہا ہے. 

انہی دو صفات (علم اور قدرت) کے حوالے سے جان لیجیے کہ ایمانیات میں تقدیر پر ایمان 
وَاَنْ تُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ درحقیقت انہی دو نوں صفات پر ایمان کا منطقی نتیجہ ہے. اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے. اب اگر میں یہ سمجھوں کہ میں اس پیالے کو اللہ کے اِذن کے بغیر اٹھا سکتا ہوں تو گویا میں نے اپنی قدرت کو اللہ کی قدرت کے مقابلے میں لا کھڑا کر دیا اور یہی شرک ہو جائے گا. میں نے ارادہ ضرور کیا ہے کہ اس پیالے کو اٹھا لوں‘ لیکن جب تک اذنِ ربّ نہ ہو‘ اس کی توفیق اور اس کی تیسیر نہ ہو‘ میں اسے نہیں اٹھا سکتا . گویا کہ اللہ کی قدرت تمام قدرتوں کے اوپر محیط ہے‘ حاوی ہے‘ ان کے اوپر مستولی ہے‘ چھائی ہوئی ہے. اسی طرح کل مجھے جو کچھ کرنا ہے وہ اللہ کے علم میں ہے. وہ عالم ماکان وما یکون ہے. ہر شے اس کے علم میں ہے. اس کے لیے ماضی‘ حال‘ مستقبل ہے ہی نہیں. یہ زمانے تو ہمارے لیے ہیں‘ اس کا علم تو بسیط ہے. لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ چونکہ جو کچھ میں کل کرنے والا ہوں وہ اللہ کے علم میں ہے ‘لہذا میں مجبور ہوں کہ وہ کروں. یہ جبر و قدر کی بحث ہے ‘اس کو علیحدہ کر لیجیے. یہ اُس کا Pre-knowledge ہے‘ جو Pre-determination کو مستلزم نہیں ہے. اللہ ہر شے کو جانتا ہے اور ہمیشہ سے جانتا ہے. ہر شے جو ہونے والی ہے وہ اُس کے علم کامل کے اندر ازل سے موجود ہے‘ لیکن اس کے معنی جبر کے نہیں ہیں‘ لہذا pre-determination کو pre-knowledge سے علیحدہ کر لیجیے. عام طور پر ذہنوں کے اندر جو اشکال پیدا ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ ان دونوں چیزوں کو لازم و ملزوم سمجھ لیا جاتا ہے.