سورۃ الحدید کی تیسری آیت قرآن حکیم کے مشکل ترین مقامات میں سے ہے. ذات و صفاتِ باری تعالیٰ کی بحث یہاں اعلیٰ ترین علمی سطح پر آئی ہے. فرمایا: 

ہُوَ الۡاَوَّلُ وَ الۡاٰخِرُ وَ الظَّاہِرُ وَ الۡبَاطِنُ ۚ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۳
’’وہی ہے اوّل (پہلا) اور وہی ہے آخر (پچھلا)‘ وہی ہے ظاہر (انتہائی نمایاں بھی اور غالب بھی) اور وہی ہے باطن (انتہائی مخفی اور چھپا ہوا).‘‘

یہ آیت مبارکہ ہے جس کے بارے میں امام رازی کی پوری بحث کا تفصیل سے مطالعہ کیا جائے تو واقعتا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اس آیت کی عظمت کے سامنے کھڑے 
تھرتھر کانپ رہے ہیں. اور انہوں نے الفاظ بھی ایسے پیارے لکھے ہیں : ’’اِعْلَمْ اَنّ ھٰذَا المَقام مقامٌ غامضٌ عمیقٌ مھیبٌ‘‘. یعنی ’’جان لو کہ یہ مقام بڑا غامض ہے‘ عمیق ہے‘ مہیب ہے‘‘. اس کی حقیقت کا سمجھنا آسان کام نہیں ہے. اس آیت کے مفہوم و معنی پر تو ان شاء اللہ اگلی نشست میں بحث ہو گی. اس وقت میں چاہتا ہوں کہ اس سے متعلق چند بنیادی باتیں آپ ذہن نشین کر لیں. یہ درحقیقت فلسفہ وجود سے متعلق آیت ہے اور فلسفے کا سب سے مشکل مسئلہ ماہیت وجود ہے. آپ کو معلوم ہوگا کہ ماہیت زمان اور ماہیت وجود‘ یہی فلسفے کے دو ایسے مسئلے ہیں جو لاینحل ہیں اور مشکل ترین ہیں‘ اور چونکہ بہت سے حضرات کو اس کا ذوق نہیں ہوتا لہذا وہ اس موضوع پر گفتگو کو بھی وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں. لیکن چونکہ یہ الفاظ قرآن میں آئے ہیں‘ لہذا ان پر غور و فکر ضروری ہے. قرآن مجید صرف عوام کے لیے ہدایت نہیں ہے‘ خواص کو بھی تو ہدایت یہیں سے ملے گی اور جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عقل ودیعت ہوئی ہے وہ جاننا چاہتے ہیں کہ کائنات کیا ہے؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟ وجود کی حقیقت کیا ہے؟ وجود کی ماہیّت کیا ہے؟ یہ سوالات ہیں جن پر انسان غور کرتا چلا آرہا ہے‘ اور اس بارے میں مختلف آراء بنی ہیں‘ مختلف فلسفے وجود میں آئے ہیں‘ جن میں وحدت الشہود بھی ہے‘ وحدت الوجود بھی ہے‘ پھر ثنویت بھی ہے اور تثلیث بھی ہے. اس پر تو بعد میں گفتگو ہو گی‘ اس وقت جو بات میں نوٹ کرانا چاہتا ہوں وہ صرف ظاہری الفاظ کے حوالے سے ہے.