گزشتہ نشست میں اگرچہ ہماری گفتگو تیسری آیت تک پہنچ گئی تھی لیکن پہلی دونوں آیتوں کے بارے میں بھی بعض اہم باتیں رہ گئی تھیں. آج ہمیں پہلے ان کا قرض ادا کرنا ہے‘ پھر آگے بڑھنا ہے.

پہلی آیت مبارکہ جو اِس سورۃ کا ’’مطلع‘‘ ہے ‘اس میں یہ بحث تو مکمل ہو گئی کہ سَبَحَ یَسْبَحُ اور سَبَّحَ یُسَبِّحُ کا لغوی مفہوم کیا ہے اور اللہ کی تسبیح سے کیا مراد ہے. پھر یہ کہ یہ تسبیح قولی بھی ہے اور حالی بھی‘ اور قرآن حکیم میں یہ فعل مضارع میں بھی آئی ہے اور فعل ماضی میں بھی. گویا اس کائنات کی ہر شے ہر آن اللہ کی تسبیح کر رہی ہے‘ ہمیشہ سے کرتی چلی آ رہی ہے اور ہمیشہ کرتی رہے گی. یہ مضمون تو سامنے آ گیا‘ لیکن غور کرنا ہو گا کہ اس مضمون کی اہمیت کیا ہے؟ اس قدر اہتمام اور شد و مد کے ساتھ پانچ سورتوں کے آغاز میں جو یہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے‘ اس کا کیا سبب ہے؟
جان لیجیے کہ اصل میں یہ الفاظ حصولِ معرفت ربّ کے ذریعے اور طریقے پر بحث کر رہے ہیں. جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں‘ انسان کے لیے اللہ کی معرفت ہی اصل مطلوب و مقصود ہے‘ جب صحیح معرفت حاصل ہو جائے گی تو اس کا ظہور اعمال سے خود بخود ہونا شروع ہو جائے گا اور انسان حق عبادت بھی اد ا کر سکے گا. لیکن سوال یہ ہے کہ معرفت کے حصول کا طریقہ کیا ہے؟

اللہ کی معرفت کے حصول کے دو راستے ہیں:
(۱) عقلی اور منطقی راستہ 
(Rational Approach)
(۲) قلب اور روح کے ذریعے اللہ کو پہچاننا (Mystic Approach) 
اگرچہ ہمارے صوفیاء کا اصل میدان تو مؤخر الذکر ذریعہ ہی ہے‘ لیکن قرآن مجید نے اسے زیادہ نمایاں نہیں کیا‘ اگرچہ ا س کو تسلیم کیا ہے اور اس کی طرف اشارہ کیا ہے. اور یہ قرآن مجید کا ایک عام اسلوب ہے کہ بعض چیزوں پر زیادہ زور دیتا ہے اور انہیں زیادہ نمایاں کرتا ہے اور بعض سے وہ سرسری طور پر گزرتا ہے. اس میں بھی یقینا کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے اور کوئی سبق مضمر ہوتا ہے. مثلاً ارشاد ِ ربّانی ہے: وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ اَفَلَا تُبۡصِرُوۡنَ ﴿۲۱﴾ (الذّٰریٰت) ’’اورتمہارے وجود میں بھی (ہماری نشانیاں ہیں)‘ کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟‘‘ کبھی اپنے باطن میں جھانکو تو سہی! اقبال نے اس کی تعبیر اس طرح کی ہے ؏ ’’اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی!‘‘

حقیقت کا ادراک اور معرفت ربّ انسان اپنے باطن سے کر سکتا ہے. اسی کے لیے 
meditation اور مراقبے ہیں.صوفیاء نے جو راستے اختیار کیے ان کو قرآن نے اصولا ً مانا ہے . ایک حدیث‘ جو اگرچہ محدثین کے نزدیک مستند نہیں ہے‘ مگر صوفیاء اسے تسلیم کرتے ہیں‘ اس میں یہ مضمون اس طرح آیا ہے: مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ (۱’’جس نے اپنے آپ کو پہچان لیااس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا‘‘.اورقرآن مجید میں یہ مفہوم موجود ہے. اسی سلسلہ سورمیں یعنی سورۃالحشر کے آخری رکوع میں ہے کہ: 

وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنۡسٰہُمۡ اَنۡفُسَہُمۡ ؕ (آیت ۱۹)

’’اور تم ان لوگوں کی مانند نہ ہو جانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تب اللہ نے انہیں اپنے آپ سے غافل کر دیا.‘‘
گویا اللہ کی معرفت کا نتیجہ معرفت ِنفس ہے. اپنے آپ کو بھی انسان تبھی پہچانے گا اگر اللہ کو پہچانے گا. اسی کاعکس 
(converse) یہ ہے کہ اگر آپ اپنے آپ کو پہچانیں گے تو اللہ کو پہچانیں گے. گویا یہ بات دونوں طرف سے صحیح ہے. اس لیے کہ روح ِ انسانی کا ذاتِ باری تعالیٰ سے ایک خاص ربط و تعلق ہے جس کے لیے قریب ترین تمثیل یا تشبیہہ یہ ہے کہ سورج اور اس کی شعاعیں کروڑوں میل کا سفر کر کے زمین تک پہنچ رہی ہیں‘ بلکہ آگے بھی نامعلوم کہاں تک جاتی ہیں‘ لیکن ہر شعاع کا تعلق سورج کے ساتھ برقرار ہے. تو ارواح ِ انسانیہ بھی درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ایک ربط و تعلق رکھے ہوئے ہیں. گویا اللہ کو پہچاننے کا ایک راستہ یہ بھی ہے کہ انسان اپنی روح کی گہرائیوں اور (۱) مدارج السالکین لابن قیم : ۱/۷۳۴. سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ للالبانی: ۶۶. وقال: لا اصل لہ .پہنائیوں میں غور وفکر کرے. 
تاہم جیسا کہ میں نے عرض کیا‘ قرآن مجید میں معرفت ربّ کے عقلی و منطقی ذریعے کو زیادہ واضح کیا گیا ہے. لیکن پھر استدلال اور منطق کی بھی دو قسمیں ہیں:

۱) استخراجی منطق 
(Deductive Logic): اس میں آدمی ایک ایک قدم آگے بڑھا کر دلیل کے حوالے سے فہم و شعور حاصل کرتا ہے.
۲) استقرائی منطق 
(Inductive Logic): اس میں انسان کائنات میں موجود تنو ّع کے بارے میں اپنے مشاہدات جمع کرتا ہے اور اس سے کوئی نتیجہ اخذ کرتا ہے. قرآن مجید نے induction ہی کو سب سے زیادہ نمایاں کیا ہے. چنانچہ ہر شے کو اللہ کی آیت قرا ر دیا گیا ہے. فرمایا:

اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ ﴿۱۹۰﴾ۚۙ (آل عمران) 
’’یقینا آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں ہوش مند لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں.‘‘

یہی مضمون سورۃ البقرۃ میں پوری تفصیل کے ساتھ آیا ہے: 

اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ وَ الۡفُلۡکِ الَّتِیۡ تَجۡرِیۡ فِی الۡبَحۡرِ بِمَا یَنۡفَعُ النَّاسَ وَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ مَّآءٍ فَاَحۡیَا بِہِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا وَ بَثَّ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ دَآبَّۃٍ ۪ وَّ تَصۡرِیۡفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الۡمُسَخَّرِ بَیۡنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ ﴿۱۶۴﴾ (البقرۃ)

’’یقینا آسمانوں اور زمین کی ساخت میں ‘ رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں‘ اُن کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریاؤ ں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں‘ بارش کے اُس پانی میں جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے ‘پھر اس کے ذریعے سے مُردہ زمین کو زندگی بخشتا ہے اور (اپنے‘اسی انتظام کی بدولت) زمین میں ہر قسم کی جاندار مخلوق کو پھیلاتا ہے‘ ہواؤں کی گردش میںاور اُن بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں ‘ان لوگوں کے لیے بے شمار نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں.‘‘
یہ استقراء ہے. اقبال نے اس کی بڑی خوبصورت تعبیر کی ہے : ؎ 

کھول آنکھ ‘زمیں دیکھ ‘فلک دیکھ ‘فضا دیکھ
مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ! 

ہمارے متکلمین اور فلاسفہ کا طریقہ استخراجی منطق (Deductive Logic) کا تھا اور اب اس کا دور گزر چکا. چونکہ سائنس کی بنیاد بھی استقراء (induction) ہے لہذا اسی کے حوالے سے اقبال نے اپنے لیکچرز میں کہا ہے کہ ’’عہد ِحاضر کے‘سائنٹیفک کلچرکا inner core قرآنی ہے‘‘. اس لیے کہ قرآن مشاہدے کی دعوت دیتا ہے :

اَفَلَا یَنۡظُرُوۡنَ اِلَی الۡاِبِلِ کَیۡفَ خُلِقَتۡ ﴿ٝ۱۷﴾وَ اِلَی السَّمَآءِ کَیۡفَ رُفِعَتۡ ﴿ٝ۱۸﴾وَ اِلَی الۡجِبَالِ کَیۡفَ نُصِبَتۡ ﴿ٝ۱۹﴾وَ اِلَی الۡاَرۡضِ کَیۡفَ سُطِحَتۡ ﴿ٝ۲۰﴾ (الغاشیۃ) 

’’بھلا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے؟ آسمان کو نہیں دیکھتے کہ کیسے اٹھایا گیا؟ پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے جمائے گئے؟ اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی؟‘‘
یہ تمام اللہ کی نشانیاں ہیں. ان مشاہدات کے ذریعے معرفتِ ربّ حاصل کرو. قرآن مجید میں اصل زور آیاتِ آفاقی اور آیاتِ انفسی کے مشاہدے پر ہے: 

سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُ الۡحَقُّ ؕ 
(حٰم السجدۃ:۵۳

’’عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی‘ یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے.‘‘

اس لیے کہ حضور کے زمانے کے بعد 
Scientific Era شروع ہونے والا تھا. (سائنس کی موجودہ ترقی کوئی بہت قدیم نہیں ہے‘ بلکہ دو تین سو برس کے اندر ہی یہ بہت بڑا دھماکہ ہوا ہے) ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن مجید اس سائنسی دَور کا فاتح ہے کہ اس نے انسانوں کو غور و فکر کی دعوت دی ہے : وَ لَا تَقۡفُ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ اِنَّ السَّمۡعَ وَ الۡبَصَرَ وَ الۡفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنۡہُ مَسۡـُٔوۡلًا ﴿۳۶(بنی اسراء یل)

’’کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو. یقینا آنکھ‘ کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے.‘‘
یعنی تم اپنے موقف کی بنیاد توہّمات پر نہ رکھو‘ بلکہ عقل سے استدلال کرو‘ سمع و بصر سے کام لو اور نتیجہ اخذ کرو. قرآن مجید میں اس پر جو زور دیا گیا ہے‘ وہ دو وجوہ سے ہے :

۱) عرب جو قرآن کے اوّلین مخاطب تھے‘ ان کا ذوق منطقی اور فلسفیانہ نہیں تھا. وہ ایک اُمّی قوم تھی‘ جس میں پڑھنے لکھنے کا رواج نہیں تھا. وہ قوت کار اور قوت کردار کے مالک تھے. خاص طور پر مکہ کے لوگوں کا معاملہ یہ تھا کہ جب تک کوئی دشمن تھا تو جانی دشمن تھا‘ لیکن جب کوئی ہاتھ میں ہاتھ دے دیتا تھا تو وہی 
’’وَلِیٌّ حَمِیۡمٌ ‘‘ بن جاتا تھا.ان کے یہاں کسی قسم کی منافقت نہیں تھی‘ بلکہ کردار کی بڑی پختگی تھی کہ جو کہہ رہے ہیں وہی کر رہے ہیں. ظاہر ہے کہ فلسفہ اور منطق ان کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا تھا. اس حوالے سے بھی قرآن مجید نے‘ Inductive Logic کو نمایاں کیا ‘اور اس اعتبارسے بھی کہ اب Scientific Era کا آغاز ہونا تھا.

بہرحال قرآن کا ایک اسلوب وہ ہے جو میں نے بیان کیا کہ ہر شے اللہ کی نشانی ہے‘ اسے دیکھو اور اس کے ذریعے اللہ کو پہچانو ؎

برگِ درختانِ سبز در نظرے ہوشیار
ہر ورقے دفتر است از معرفت کردگار

گویا درخت کا ہر پتا اللہ کی معرفت کا دفتر ہے. اسی مضمون کو قرآن نے اس طرح ادا کیا ہے کہ ہر شے اللہ کی تسبیح کر رہی ہے. اس کائنات کا ذرہ ذرہ اپنے وجود سے اپنے خالق اور صانع اور موجد کے ایک ہستی‘ کامل ہونے کا اعتراف اور اقرار و اعلان کر رہا ہے اور اسی کے ذریعے سے تم اللہ کی معرفت حاصل کر سکو گے. یہ ہے اس مضمون کی اہمیت جو اس سورۂ مبارکہ کی پہلی آیت میں بیان ہوا:

سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱﴾ دوسری آیت کے مرکزی مضمون (اللہ تعالیٰ کے اختیار و اقتدار) پر ہم گفتگو کر چکے ہیں . یہ بات دوبارہ نوٹ کر لیجیے کہ یہ بہت اہم مضمون ہے. چنانچہ ان چھ آیات میں یہ مضمون بار بار آیا ہے . پہلی آیت کا اختتام ہوا : وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱﴾ ’’وہ غالب‘ حکمت والا ہے‘‘. پھر یہ الفاظ ان آیات میں دو مرتبہ آئے ہیں: لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ ’’اسی کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے‘‘. اس کے علاوہ آج ہم پڑھیں گے کہ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ ؕ ’’پھر وہ عرش پر متمکن ہوا‘‘. یعنی ا س کائنات کو پیدا کرنے کے بعد وہ کہیں الگ تھلگ ہو کر نہیں بیٹھ گیا کہ اسے اس سے کوئی دلچسپی نہ ہو‘ جیسا کہ بعض فلاسفہ کا خیال ہے‘ بلکہ وہی ہے جو تختِ حکومت پر متمکن ہے. ان چھ آیات کے اندر چار مرتبہ emphasise کیا گیا کہ اس کائنات کا شہنشاہِ مطلق اللہ ہے اور پوری کائنات میں اسی کی حکومت بالفعل قائم ہے. اس وسیع و عریض کائنات کے ایک گوشے میں موجود انسانی زندگی کی اس کائنات کے ساتھ کیا نسبت تناسب بنے گی؟ اور اس میں بھی انسان کی زندگی کا تھوڑا سا حصہ ہے جس میں اسے آزادی‘ (free will) دی گئی ہے. اور اس ہلدی کی گانٹھ کو لے کر آدمی حاکم‘ (sovereign) بن کر بیٹھ جاتا ہے اور اس کی بنیاد پر بغاوت کرتا ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی: 

ظَہَرَ الۡفَسَادُ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ بِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِی النَّاسِ.... (الروم:۴۱)

’’خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیاہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے.‘‘
اور درحقیقت اس سورۂ مبارکہ میں جو زور دے کر کہا جا رہا ہے کہ لگادو‘ خرچ کر دواپنے آپ کو اللہ کی راہ میں‘ تو کس کام کے لیے؟ تاکہ اللہ کی حکومت قائم کی جائے! جسے بائبل کی 
Lord's Prayer میں اس طرح تعبیر کیا گیا ہے کہ: 

,Thy Kingdom come
Thy Will be done on earth 
.as it is in heavens 

یعنی اے ربّ! تیری مرضی جس طرح آسمانوں میں نافذ ہے اسی طرح زمین پر بھی تیری حکومت قائم ہو جائے! یہ حکومت ِالٰہیہ کا قیام ہے‘ اسی کا نام اقامت ِ دین ہے‘ اسی کا نام غلبۂ دین حق ہے‘ اسی کا نام تکبیر ربّ ہے. ان سورتوں میں سارا زور اسی پر ہے کہ ہم نے اپنے رسول کو بھیجا ہی اس لیے ہے کہ اللہ کے دین کو پورے کے پورے نظامِ زندگی پر غالب کر دے. یہی مقصد ِبعثت ِمحمدیؐ ہے. یہی وہ مقصد ہے (نظامِ عدل و قسط کو قائم کرنا) جس کے لیے تمام رسول بھیجے گئے. اب ظاہر ہے اس کے لیے جان کھپانی ہو گی‘ مال خرچ کرنا ہو گا‘ وقت پڑنے پر نقدجان ہتھیلی پررکھ کر میدان میں آنا ہو گا اور گردنیں کٹوانی ہوں گی.

اب آیئے تیسری آیت کی طرف! جیسا کہ میں نے عرض کیا تھایہ فلسفۂ وجود سے بحث کرتی ہے جو کہ فلسفے کا مشکل ترین موضوع ہے. اس ضمن میں دو باتیں بنیادی طورپر سمجھ لیجیے.

ایک یہ کہ قرآن دقیق فلسفیانہ مسائل ضمنی طور پر زیر بحث لاتا ہے اور اُن پر زیادہ بحث نہیں کرتا‘ لیکن لاتا ضرور ہے. اس کے بھی دو اسباب ہیں. ایک تو یہی بات جو پہلے کہی جا چکی ہے کہ قرآن کے اوّلین مخاطب اُمّی تھے‘ لیکن رسول اکرم کی بعثت تو پوری نوعِ انسانی کے لیے ہے : 

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا (سبا:۲۸’’اور (اے نبیؐ !) ہم نے آپ کو تمام ہی انسانوں کے لیے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے‘‘. اور نہ صرف آپؐ اپنے دَور کے تمام انسانوں کی طرف رسول بناکر بھیجے گئے بلکہ تاقیامِ قیامت آپؐ ہی کا دورِ رسالت ہے. اب ظاہر ہے کہ بنی نوعِ انسان میں ہر طرح کے آدمی ہیں. عوام بھی ہیں‘ خواص بھی ہیں‘ جاہل بھی ہیں‘ علماء بھی ہیں‘ فضلاء بھی ہیں‘ فلاسفہ بھی ہیں‘ ہر ذہنی سطح کے لوگ ملیں گے‘ ہر طرح کی تہذیب اور تمدن سے واسطہ پڑے گا. ان سب کی طرف رسالت محمدیؐ کی بعثت ہے. اس اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کاملہ کے تحت جو طریقہ اختیار کیا وہ یہ ہے کہ پہلے ایک قوم کا انتخاب کیا اور اس کے ذہن ‘ فکر ‘عمل اور اخلاق و کردار کے اندر ایک عظیم انقلاب برپا کیا اور اسے instrument بنایا کہ اب بقیہ نوعِ انسانی تک یہ پیغامِ رسالت تم پہنچاؤ. اس میں ظاہر ہے کہ پہلی مخاطب قوم کی ذہنی سطح کو اگر ملحوظ نہ رکھا جاتا تو یہ پیغام خود اُس قوم کی ذہنی سطح سے بالاتررہتا. اس حوالے سے قرآن مجید کا بڑا حصہ اُس قوم کے عقل وشعور کی سطح کے مطابق گفتگوکرتا ہے. البتہ چونکہ قرآن حکیم ہمیشہ کے لیے ہدایت ہے اور محمد رسول اللہ  کی رسالت پوری نوع انسانی کے لیے ہے جس میں علماء و حکماء بھی ہوں گے‘ لہذا قرآن حکیم دقیق فلسفیانہ مسائل کو بھی touch کرتا ہے.ظاہر بات ہے کہ بڑے بڑے فلسفیوں کو بھی تو آخر ہدایت یہیں سے نصیب ہونی تھی‘ بیسویں صدی میں علامہ اقبال جیسے نابغہ عصر کی فکری پیاس بھی آخر اِسی چشمہ ٔحیواں سے بجھنی تھی‘ جس نے کہا کہ ؎ 

نہ کہیں جہاں میں اماں ملی‘ جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں!

مشرق و مغرب کے سارے فلسفے کھنگالنے کے بعد علامہ اقبال کو اگر آسودگی میسر آئی اور اگر سکون نصیب ہوا تو قرآن مجید کے دامن میں. چنانچہ اپنے فلسفۂ خودی کے بارے میں خود ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ فلسفۂ قرآن سے اخذ کیا ہے. سید نذیر نیازی نے علامہ اقبال سے دریافت کیا تھا کہ آپ کے اس فلسفہ خودی کا ماخذ کیا ہے اور اس اعتبار سے آپ کس مغربی فلسفی کے خوشہ چین ہیں؟تو علامہ نے ان سے فرمایا کہ کل فلاں وقت آجانا‘ میں تمہیں لکھوا دوں گا. سید نذیر نیازی یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں میں بہت خوش تھا کہ مجھے یہ سعادت نصیب ہو رہی ہے کہ شاعر مشرق مجھے اپنے فلسفۂ خودی کا source لکھوائیں گے. لیکن جب سید نذیر نیازی علامہ اقبال کی خدمت میں پہنچے تو اقبال نے کہا کہ قرآن مجید نکال لو اور سورۃ الحشر کی آیت ۱۹ کھول کر کہنے لگے کہ میرے فلسفہ ٔ خودی کا ماخذیہ آیت مبارکہ ہے: 

وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنۡسٰہُمۡ اَنۡفُسَہُمۡ ؕ

’’اور ان لوگوں کے مانند نہ ہو جانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں خود اپنے آپ سے غافل کر دیا.‘‘ 
تو قرآن مجید میں یہ چیزیں بھی موجود ہیں‘ لیکن ضمنی طور پر آ ئی ہیں‘ اس طور سے کہ اس زمانے کا عرب اسے پڑھتے ہوئے ذرا سا تو ٹھٹکے‘ لیکن اس سے کوئی مفہوم اخذ کر کے 
آگے نکل جائے‘ رک نہ جائے ‘بلکہ گزر جائے. البتہ کوئی ایسا شخص جس کے ذہن میں فلسفیانہ مسائل ہوں گے وہ جب آئے گا تو رک جائے گا کہ جا ایں جاست! یہ ہے اصل جگہ. وہ اس مقام پر غور کرے گا اور اس کی ہدایت اسے وہاں سے مل جائے گی. اور ظاہر ہے کہ جو خود فلسفی و حکیم ہے اسے زیادہ تفصیل کی ضرورت نہیں ہوتی‘ اس کے لیے تو اشارہ کافی ہے‘ اس کوراہنمائی کے لیے چند الفاظ مل گئے تو اس کی الجھن حل ہو گئی. یہی وجہ ہے کہ فلسفیانہ مسائل قرآن مجید میں موجود تو ہیں‘ لیکن اس طرح کہ جن لوگوں کا مزاج فلسفیانہ نہیں وہ وہاں سے گزر جائیں گے‘ لیکن جن کے ذہن میں سوالات ہیں وہ وہاں رک جائیں گے. اب امام رازی‘ جو بہت بڑے منطقی‘ فلسفی اور متکلم ہیں وہ اس مقام پر رک گئے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ کہتے ہوئے تھر تھر کانپ رہے ہوں:

اِعْلَمْ اَنَّ ھذا المقامَ مقامٌ غامضٌ عمیقٌ مہیبٌ 

’’جان لو کہ یہ مقام بڑا عمیق اور گہرا مقام ہے‘ بڑا پُرہیبت مقام ہے! ‘‘
اور آج کے دَور میں مثلاً مولانا اصلاحی صاحب یہاں سے ایسے گزر گئے جیسے یہاں کچھ ہے ہی نہیں.اپنی تفسیر کے اندر وہ حدیث کا سہارا بہت کم لیتے ہیں. ان کا اپنا ذوق اور مزاج تفسیر القرآن بالقرآن کا ہے. چنانچہ بعض معاملات میں تو انہوں نے متفق علیہ احادیث کوبھی لائق اعتناء نہیں سمجھااور اٹھا کر پھینک دیا لیکن یہاں صرف ایک حدیث کا سہارا لے کر گزر گئے جیسے اس آیہ مبارکہ میں اور کچھ ہے ہی نہیں.بہرحال یہ اصولی بات ذہن میں رکھیے کہ قرآن مجید میں دقیق فلسفیانہ مسائل پر مفصل بحث نہیں ہوتی ‘بلکہ صرف اشارہ ہوتا ہے.