ہُوَ الۡاَوَّلُ وَ الۡاٰخِرُ وَ الظَّاہِرُ وَ الۡبَاطِنُ ۚ کے بارے میں ہمیں حدیثِ نبویؐ سے بھی راہنمائی ملتی ہے. یہ حدیث حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے اور صحیح مسلم ؒ اور مسند احمد بن حنبلؒ میں آئی ہے. نیز قاضی ابویعلی ٰ ؒ نے اسے اپنی ’’مسند‘‘ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے. یہ اصل میں حضور  کی ایک دعا ہے :

اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الْاَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْئٌ
وَاَنْتَ الْآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْئٌ
وَاَنْتَ الظَّاھِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْئٌ
وَاَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُوْنَکَ شَیْئٌ 

’’اے اللہ! تو ہی وہ اوّل ہے جس سے پہلے کچھ نہیں. اور تو ہی وہ آخر ہے جس کے بعد کچھ نہیں ہو گا. تو ہی ظاہر ہے‘ تجھ سے بڑھ کر نمایاں یا بالاتر کوئی نہیں اور اے اللہ!تو ہی ایسا باطن ہے کہ تجھ سے زیادہ مخفی کوئی نہیں!‘‘

آپ حدیث کے ان الفاظ پر غور کریں گے تو معلوم ہو گا کہ حضور کی اس حدیث نے اس نہایت ثقیل ‘ نہایت دقیق اور نہایت مشکل مضمون کو بہت سہل اور آسان بنا دیا. چنانچہ اس حدیث کے حوالے سے انسان بآسانی یہاں سے گزر جائے گا. لیکن واقعہ یہ ہے کہ غور کرنے والے کے لیے اس میں اشکالات موجود ہیں. اس کی وجہ یہ ہے 
کہ جو الفاظ ہمارے پاس ہیں ان کا اپنا ایکconnotation اور مفہوم ہوتا ہے اور یہ الفاظ چونکہ ہماری زبان کے ہیں‘ لہذا ان کا وجود ہمارے اپنے تصورات کے مطابق ہوتا ہے. جب ہم کسی شے کو کہتے ہیں کہ یہ پہلی چیز ہے‘ اس سے پہلے کچھ نہیں‘ تو اس کے بارے میں خواہ مخواہ ایک تصور پیدا ہو جاتا ہے کہ اس شے کا گویا اپنا کوئی نقطہ ٔ آغاز ہے. ہم کہتے ہیں کہ یہ پہلا مکان ہے‘ اس سے پہلے کچھ نہیں ہے‘ مگر اس سے پہلے خلاہے. لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں ہم یہ تصور قائم نہیں کر سکتے کہ اس کے وجود کا کوئی نقطۂ آغاز بھی ہے یا اس سے پہلے کوئی عدمِ محض تھا. لیکن اس کی تعبیر کے لیے ہم الفاظ کہاں سے لائیں؟ کسی ایسی ہستی کی تعبیر کے لیے جو ہمیشہ سے ہو‘ ہمارے پاس کوئی لفظ‘ہے ہی نہیں. اصطلاح میں ہم لفظ ’’قدیم‘‘ اختیار کرتے ہیں‘ لیکن قدیم کے عام معنی پرانی شے کے ہیں.ہم کہتے ہیں کہ فلاں شہر بڑا قدیم شہر ہے‘ فلاں تہذیب بڑی قدیم تہذیب ہے‘ لیکن اس کے یہ معنی تو نہیں ہو سکتے کہ وہ ہمیشہ سے ہے. یہ مفہوم توہمیں اضافی طور پر اصطلاح میں داخل کرنا پڑا‘ یہ ہماری مجبوری ہے. حقیقت یہ ہے کہ ہماری زبان میں وہ الفاظ ہی موجود نہیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذاتِ مطلق کی صحیح تعبیرکر سکیں. 

آپ حدیث کے الفاظ پر غور کیجیے. فرمایا: 
’’وَاَنْتَ الْآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْ ء‘‘ یہاں حضور نے لفظ ’’بَعْدَکَ‘‘ ارشاد فرمایا ہے‘ لیکن کیا اللہ کے بعد کا کوئی تصور ہے؟ ظاہر بات ہے کہ اللہ کے بعد کا کوئی تصور نہیں. اللہ تو ہمیشہ سے ہے‘ نہ کوئی لمحہ کبھی ایسا تھا کہ جب اللہ نہیں تھا اور پھر اس کے وجود کا کوئی آغاز ہوا ہو ‘ اور نہ کوئی لمحہ کبھی ایسا آسکتا ہے جب کہ اللہ کا وجود نہیں ہو گا‘ لیکن اس حقیقت کی تعبیر کے لیے سادہ اور عام فہم الفاظ وہی ہوں گے جو حضور نے اختیار فرمائے: 

اَنْتَ الْاَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْئٌ
وَاَنْتَ الْآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْئٌ 

پھر ان الفاظ کے اندر از خود ایک احتیاج موجود ہے‘ اوّل و آخر کے الفاظ کوئی اضافی نسبت طلب کرتے ہیں کہ کس کا اوّل؟ کس کا آخر؟یہ الفاظ اس خطبے میں بھی آئے ہیں جو حضور نے شعبان کے آخری دن رمضان المبارک کے استقبال کے ضمن میں اس کی عظمت کو بیان کرنے کے لیے دیا تھا.اس خطبے میں آپ نے ’’اوّل و آخر‘‘ کورمضان المبارک کے مہینے کے ساتھ نسبت دی : اَوَّلُہٗ رَحْمَۃٌ وَاَوْسَطُہٗ مَغْفِرَۃٌ وَآخِرُہٗ عِتْقٌ مِّنَ النَّارِ یعنی اس مہینے کا اوّل اللہ تعالیٰ کی رحمت کا مظہر ہے ‘ درمیانی حصہ اللہ کی مغفرت کا مظہر ہے اور اس کا آخری حصہ جہنم سے گلو خلاصی ہے. 
اسی طرح آپ دیکھیں گے کہ اسی سورۂ مبارکہ میں آگے آ رہا ہے : 
فَضُرِبَ بَیۡنَہُمۡ بِسُوۡرٍ لَّہٗ بَابٌ ؕ کہ جنت اور دوزخ کے مابین ایک فصیل حائل کر دی جائے گی جس کا ایک دروازہ ہو گا. بَاطِنُہٗ فِیۡہِ الرَّحۡمَۃُ وَ ظَاہِرُہٗ مِنۡ قِبَلِہِ الۡعَذَابُ ﴿ؕ۱۳﴾ اس دروازے کے اندر رحمت ہو گی اور باہر عذاب. تو باطن کے لیے بھی نسبت درکار ہے کہ کس شے کا باطن‘ اور ظاہر کے لیے بھی نسبت درکار ہے کہ کس شے کا ظاہر! ہُوَ الۡاَوَّلُ وَ الۡاٰخِرُ وَ الظَّاہِرُ وَ الۡبَاطِنُ ۚ میں اس شے کا ذکر نہیں کیا گیا‘ لیکن اگر اس پر غور کیا جائے تو وہ ایک ہی شے ہو سکتی ہے کہ کل سلسلۂ کون و مکاں‘ یہ کل تخلیق کا سلسلہ! اس سلسلہ کا اوّل بھی اللہ ہے‘ اس کا آخر بھی اللہ ہے ‘ اس کا ظاہر بھی اللہ ہے اور اس کا باطن بھی اللہ ہے‘ لیکن چونکہ قرآن مجید فلسفیانہ انداز اختیار کرنا نہیں چاہتا‘ لہذا وہ الفاظ اختیار کیے گئے جن کو ایک عام آدمی ‘ ایک بدو بھی پڑھ کر گزر جائے اور اسے کوئی اشکال نہ ہو. اور اگر اسے زیادہ ہی دقت ہو تو اس حدیث نبویؐ کے حوالے سے اس کی مشکل حل ہو جائے گی اور وہ بڑی سہولت کے ساتھ یہاں سے گزر جائے گا:

اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الْاَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْئٌ
وَاَنْتَ الْآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْئٌ
وَاَنْتَ الظَّاھِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْئٌ
وَاَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُوْنَکَ شَیْئٌ 

لیکن حقیقت میں کائنات کے اس پورے سلسلۂ تخلیق کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات کا ربط یہ ہے کہ وہ اس کا غیر نہیں ہے.