ذاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں ہمارے عوام کا ایک عام تصور یہ ہے کہ وہ کسی ایک خاص جگہ پر موجود ہے اور اس کا وجود کائنات میں ہر جگہ نہیں ہے. اسی سورۂ مبارکہ کی اگلی آیت میں جو الفاظ آ رہے ہیں : وَ ہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ ؕ ’’اوروہ تمہارے ساتھ ہی ہوتا ہے جہاں کہیں تم ہو‘‘ کے بارے میں بالعموم یہ تصور ہے کہ وہ صرف اپنی صفات کے اعتبار سے ہمارے ساتھ ہے‘ ہمیں دیکھ رہا ہے‘ ہماری باتیں سن رہا ہے. یہ تواس کی تاویل ہو گئی‘ جبکہ الفاظ تو یہ ہیں : وَ ہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ ؕ ’’اوروہ خود تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں بھی تم ہو‘‘.تو یہ تاویل درحقیقت ان الفاظ کا حق ادا نہیں کر رہی. وہ ہمارے ساتھ کیسے ہے؟ یہ ہم نہیں جانتے‘ لیکن وہ ہمارے ساتھ ہر جگہ‘ ہر آن موجود ہے. اس کے لیے انگریزی میں جو Attributes of God آئے ہیں وہ بہت جامع ہیں . وہ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌہے‘ Omnipotent ہے.وہ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ہے‘ Omniscient ہے.جہاں کہیں بھی تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے‘ Omnipresent ہے. 

وَ ہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ ؕ یہ الفاظ بالکل واضح ہیں‘ ان میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں ہے. جیسے اللہ کا ہاتھ (یَدُ اللّٰہِ) ایک حقیقت ہے. ہم مانتے ہیں کہ اللہ کا ہاتھ ہے‘ وہ ایسا ہاتھ نہیں ہے جیسے ہمارا‘ لیکن کوئی حقیقت تو ہے جس کو ’’یَدُ اللّٰہِ ‘‘ سے تعبیر کیا گیا.اس کی کیفیت کو ہم نہیں جانتے‘ یہ ہماری وہ مجبوری ہے جو اللہ کی ہر صفت کے بارے میں ہے. جیسا کہ میں گزشتہ نشست میں بیان کر چکا ہوں‘ اللہ دیکھتا ہے‘ لیکن کیسے دیکھتا ہے؟ یہ ہم نہیں جانتے! ہمیں کیا پتہ کہ کیسے دیکھتا ہے! اس کی اس طرح کی آنکھیں تو نہیں ہیں جیسی ہماری. اس کا دیکھنا اس خارجی نور کا محتاج تو نہیں ہے جس کے ہم محتاج ہیں. ہماری بصارت اگرچہ موجود ہو‘ آنکھ بھی درست ہو ‘لیکن اگر روشنی نہ ہو تو ہم نہیں دیکھ سکتے. ہمارے اور اس کے مابین لفظ ’’دیکھنا‘‘ مشترک ہے‘ کہ ہم بھی دیکھتے ہیں ‘وہ بھی دیکھتا ہے ‘لیکن اس کی نوعیت میں زمین و آسمان کا فرق ہے. گویا ؏ ’’چہ نسبت خاک را با عالم پاک! ‘‘ہمارے اور اس کے دیکھنے کی نوعیت میں کوئی آس پاس کا قرب ہے ہی نہیں.فارسی کے یہ اشعار ذرا ملاحظہ کیجیے ؎ 

اے برتر از خیال و قیاس و گمان و وہم
وز ہرچہ گفتہ ایم و شنیدیم و خواندہ ایم
دفتر تمام گشت و بپایاں رسید عمر
ما ہم چناں در اوّلِ وصفِ تو ماندہ ایم! 

’’اے وہ ذات تبارک و تعالیٰ جو ہمارے خیال‘ قیاس‘ گمان اور وہم ہر شے سے ماوراء ہے !جو کچھ ہم نے کہا‘ جو کچھ ہم نے سنا اور جو کچھ ہم نے پڑھا‘ ان سب سے تیری ذات بہت بلند اور اعلیٰ و ارفع ہے. (ہمارے پاس وہ نطق اور وہ الفاظ ہی نہیں ہیں جن سے ہم تیرے کسی وصف کو بیان کر سکیں.) دفتر کے دفتر ختم ہو گئے اور اب ہماری عمر کا سفینہ بھی آخری سرحد کو پہنچا ہوا ہے‘ اس کے باوجود ہم ابھی تیری پہلی صفت ہی کے بارے میں متحیر اور پریشان ہیں (اور ہمیں اس کے بارے میں کوئی تصور اور ادراک نہیں ہو سکا)‘‘.

متکلمین کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی صفت اوّلین وجود ہے. اللہ تعالیٰ کی چھ سب سے اہم اور بنیادی صفات وجود‘ حیات‘ علم ‘ ارادہ‘ قدرت اور کلام ہیں ‘بقیہ تمام صفات ان ہی صفات کی شرح ہیں. بعض لوگ ان میں سماعت اور بصارت کو بھی شامل کرتے ہیں‘ لیکن سماعت اور بصارت درحقیقت صفت علم ہی کی شرح ہیں. تو ان صفات میں سب سے پہلی صفت ’’وجود‘‘ ہے‘ جس کے بارے میں کہا گیا ’’ماہم چناں در اوّلِ وصف تو ماندہ ایم!‘‘ یعنی ہم تو تیرے پہلے وصف کے بارے میں ہی متحیر ہیں ‘ پریشان ہیں اور اس پر غور کرتے ہوئے ہماری عقل ہمارا ساتھ چھوڑ جاتی ہے ؎ 

جبکہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟

وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں جو تشبیہات پیش کی گئی ہیں وہ میں آپ کے سامنے عرض کر چکا ہوں. آپ چاہیں تو توحید وجودی اور وحدت الوجود کو دماغ کا خلل قرار دیں‘ لیکن اسے کفر اور شرک نہ کہیں‘ اس لیے کہ نظریہ ’’وحدت الوجود‘‘ ہمہ اوست اور Pantheism کے مترادف نہیں ہے.