آگے فرمایا: ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ’’وہی ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں‘‘. یہ بات میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ آسمان اور زمین قرآن کی مستقل تعبیر ہے کل سلسلۂ کون و مکان کے لیے. قرآن حکیم کون و مکان جیسی فلسفیانہ اصطلاحات استعمال نہیں کرتا‘ آسمان اور زمین کے مفہوم کو عام آدمی بھی سمجھتا ہے‘ لیکن اس سے مراد ہے کل سلسلۂ وجود‘ کل سلسلۂ مخلوقات‘ کل سلسلۂ کائنات. یہ سب اللہ تعالیٰ نے چھ دنوں میں تخلیق فرمایا. 
آسمان و زمین کی چھ دنوں میں تخلیق کا مضمون قرآن مجید میں سات مرتبہ آیا ہے‘ جس طرح قصہ آدم و ابلیس بھی قرآن مجید میں سات مرتبہ دہرایا گیا ہے. اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین چھ دنوں میں پیدا کیے. یہاں دن سے مراد کیا ہے؟ اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ اس سے ہمارا دن مراد نہیں ہے. ہماری زمین کی اپنے محور پر ایک گردش جو ہوتی ہے اس سے ہمارا چوبیس گھنٹے کا ایک رات دن وجود میں آتا ہے. اسی طرح ہر سیارے 
(planet) کا دن دوسر ے سے مختلف ہے.اب ہماری پوری کہکشاں (Galaxy) کا دن کیا ہو گا؟ کائنات کی ہر شے گھوم رہی ہے‘ جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے : کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ یہ بہت بڑی astronomical حقیقت ہے جو قرآن میں بیان ہوئی ہے. اگر انسان واقعتا ادراک کرے تو حیرت ہوتی ہے کہ قرآن حکیم میں چودہ سو برس قبل یہ الفاظ آئے ہیں. اُس وقت صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس کا کیا مفہوم سمجھا ہو گا‘ ہم اس کا کچھ اندازہ نہیں کر سکتے. یہ حقیقت انسان پربتمام و کمال آج منکشف ہوئی ہے کہ ؏ ’’ سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں!‘‘ کائنات کی کوئی شے ٹھہری ہوئی نہیں. ذرّہ (atom) کو دیکھیں تو اس میں بھی electrons مسلسل حرکت میں ہیں اور اسی طرح آپ اپنے نظامِ شمسی کو دیکھیں تو ہر سیارہ گردش میں نظرآتا ہے ‘جیسے زمین کے بارے میں کہا گیا ؏ 

’’یہ زمیں ‘ یہ فضا کی رقاصہ!‘‘

زمین گویا رقص کر رہی ہے ‘ خود اپنے محور کے گرد بھی چکر کھا رہی ہے اور سورج کے گرد بھی طواف کر رہی ہے. پھر یہ سورج جو اپنے پورے خاندان کو لے کر کسی بہت بڑے 
star کے گرد چکر لگا رہا ہے‘ یہ تیسری حرکت ہے. پھر ہماری پوری Galaxy حرکت میں ہے. چنانچہ ہر شے حرکت میں ہے. اس حقیقت کو قرآن نے ان الفاظ میں بیان کر دیا : کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ . جیسے اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارے میں ایک ہی لفظ ’’کُل‘‘ ہماری پناہ گاہ ہے اسی طرح یہاں بھی وہی لفظ ’’کُل‘‘ استعمال کیاگیا ہے. تو اب اس پوری کائنات کا دن کیا ہو گا؟ قرآن مجید میں کچھ اور دنوں کا بھی تصور ہے‘ لیکن لازم نہیں ہے کہ وہ مقدار یہاں مراد سمجھی جائے . البتہ ایک اللہ تعالیٰ کی تدبیر کا دن ہے. وہ ہماری اس دنیا کے معاملات کی تدبیر فرماتا ہے. جیسے ہمارے ہاں پانچ سالہ یا دس سالہ منصوبہ ہوتا ہے. اللہ تعالیٰ کے ہاں سے ایک دن کے لیے (جو ہمارے حساب سے ہزار برس ہوتے ہیں) تدبیر کا معاملہ طے ہو جاتا ہے‘ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الۡاَرۡضِ ثُمَّ یَعۡرُجُ اِلَیۡہِ فِیۡ یَوۡمٍ کَانَ مِقۡدَارُہٗۤ اَلۡفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ ﴿۵﴾ (السجدۃ) 

’’وہ اپنے امر کی تدبیر کرتا ہے آسمان سے زمین کی طرف‘ پھر وہ امر اس کی طرف واپس لوٹتا ہے ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمہارے شمارسے ایک ہزار سال ہے‘‘. ایک ہزار برس کی اس مقدار کی غلط تعبیر کرتے ہوئے اکبر کے زمانے میں ابوالفضل اور فیضی جیسے بڑے جغادری علماء نے‘ جو اقبال کے الفاظ میں لغت ہائے حجازی کے قارون تھے‘ اکبر کے ایماء پر یہ شوشہ چھوڑا کہ شریعت ِمحمدی کو آئے ہوئے ایک ہزار برس پورے ہوگئے ہیں‘ لہذا اب دین محمدیؐ کا دور ختم ہوا اور دین الٰہی کا دور شروع ہو رہا ہے. 

قرآن مجید میں پچاس ہزار سال کے برابر ایک دن کا ذکر بھی موجود ہے اور اس کے بارے میں گمان غالب ہے کہ وہ قیامت کا دن ہے .فرمایا : 
تَعۡرُجُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ اِلَیۡہِ فِیۡ یَوۡمٍ کَانَ مِقۡدَارُہٗ خَمۡسِیۡنَ اَلۡفَ سَنَۃٍ ۚ﴿۴﴾ (المعارج:۴’’ملائکہ اور روح (جبرئیل ؑ) اس کے حضور چڑھ کر جاتے ہیں ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے‘‘. جہاں تک زمین و آسمان کی چھ دنوں میں تخلیق کا معاملہ ہے تو یہ ضروری نہیں ہے کہ تخلیق کے ایک دن کو ہم ایک ہزار برس کا قرار دیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ اسے پچاس ہزار برس کا قرار دیں. تخلیق کے ان چھ دنوں کی مقدار ہمیں معلوم نہیں ہے‘ یہ دراصل چھ ادوار ہیں جن کے لیے ہم millenniums یا eras کے الفاظ استعمال کرتے ہیں.