آگے فرمایا : ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ ؕ ’’پھر وہ عرش پر جلوہ افروز ہوا‘‘. ایسا ہرگز نہیں کہ تخلیق فرما کر وہ کہیں علیحدہ بیٹھ گیا ہو‘ بلکہ وہ تخت حکومت پر متمکن ہوا. بعض صوفیا ء کا تصور بھی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو اپنی ذات میں مگن ہے‘ اسے اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ کائنات میں کیا ہو رہا ہے‘ وہ اس سے مستغنی ہے. چنانچہ مشائین (جو ارسطو کی منطق کے پیروکار ہیں) یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عالم کلیات ہے‘ عالم جزئیات نہیں ہے. یہی گمراہی اس وقت جدید سائنسی تصورات اور مادہ پرستی کے زیر اثر پھیل رہی ہے. دَورِ جدید کا سب سے بڑا شرک تو انسانی حاکمیت کا تصور ہے‘ جبکہ اس کے ساتھ دوسرا بڑا شرک مادّہ پرستی ہے. اس مادّہ پرستی نے انسانی ذہن کو اتنا گرفت میں لے لیا ہے کہ جو خد اکو مانتا ہے وہ بھی اس معنی میں مانتا ہے کہ کائنات کا خالق (Creator) تو وہ ہے‘ لیکن اس کی تخلیق کے بعد اس نے کچھ طبعی قوانین (physical laws) بنا دیے ہیں جن کے تحت یہ کائنات خود بخود چل رہی ہے. چنانچہ ہر لحظہ‘ ہر آن اللہ کا فیصلہ اور اس کا اِذن ان کے تصور سے ماوراءہے.

فلسفہ کی اصطلاح میں اسے ’’اللہ کی تعطیل‘‘ کہتے ہیں‘ یعنی اللہ کو معطل کر دینا. گویا کائنات کی تخلیق کے بعد اب وہ معطل ہے‘ اسے اس کائنات کی روز بروز اور لمحہ بہ لمحہ working سے کوئی سروکار نہیں ہے.اس نے جو قوانین بنا دیے ان کے تحت کائنات کا نظام از خود چل رہا ہے ‘جیسے فٹ بال کا کوئی کھلاڑی فٹ بال کو ٹھوکر لگائے تو وہ گیند دوڑتی چلی جاتی ہے جب تک کہ کوئی مزاحمت اسے نہ روکے.اس گیند کو آگے بڑھانے میں اب اس کھلاڑی کا کوئی تعلق نہیں ہوتا جس نے اسے کک لگائی تھی. جبکہ ایمان اور قرآن ہمیں اللہ تعالیٰ کی یہ معرفت دیتے ہیں کہ وہ تخت حکومت پر متمکن ہے اور نظام کائنات کو کنٹرول کر رہا ہے‘ جیسا کہ ابھی ہم نے پڑھا: یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الۡاَرۡضِ یہاں تک کہ اس کے اِذن کے بغیر پتا تک جنبش نہیں کر سکتا. یہ تصور جب تک نہ ہو تو انسان کو ایمان باللہ اور معرفت ِربّ حاصل نہیں ہو سکتی. یہ وہ مفہوم ہے جو یہاں دیا گیا ہے : ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ ؕ